علم اور حکمت
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو جب علم اور حکمت کے درمیان فرق یا تعلق کے بارے میں پوچھا جائے تو الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دیکھنے میں تو دونوں ایک جیسے نظر آتے ہیں اگرچہ حقیقت میں ایک جیسے نہیں ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ حکمت فطرت میں زیادہ تجریدی ہے اور علم کسی حد تک تکنیکی ہے۔
علم:
علم کی اصطلاح صرف کسی شخص، چیز یا موضوع کے بارے میں حقائق ، مہارت اور معلومات وغیرہ کے بارے میں تفہیم یا آگہی سے مراد ہے۔ یہ وہی آگہی ہے جو آپ کسی خاص موضوع کے بارے میں جانتے ہوں۔ یہ وقت کے ساتھ تعلیم یا تجربے کے ذریعے سیکھنے، مشاہدہ، تحقیق، بحث و مباحثہ، مطالعہ اور نظریاتی یا عملی مہارت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح علم اپنے آپ کو پڑھنے، دریافت کرنے، سیکھنے اور تعلیم دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ علم میں اضافے زیادہ کتابیں پڑھنے یا سیکھنے اور کسی کام میں مہارت حاصل کرنے سے ہو سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی ایک خاص حد ہوسکتی ہے۔ علم کے بغیر زندگی گزارنا بالکل بے سود ہے۔ اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ:
“قُلْ هَلُ یسْتَوِى ٱلَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ”
ترجمہ:
کہہ دیجیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔
حکمت:
حکمت علم اور ذہانت سے وسیع تر اصطلاح ہے۔ بہتر، صحیح، سچا اور پائیدار کیا ہے یہ سوچنا، عمل کرنا یا اس کا اندازہ کرنا حکمت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ مناسب وقت، جگہ، انداز اور صورتحال پر عقل، علم اور تجربے کا بیک وقت بہترین استعمال ہے تاکہ عمل کے بہترین طریقہ پر عمل پیرا ہوسکے۔ اس سے فیصلہ کرنے اور زندگی میں فائدہ مند اور نتیجہ خیز فیصلے کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ علم اور تفہیم حکمت کی بنیاد ہے۔ لیکن تجربہ حکمت کے حصول کی کلید ہے۔ یہ علم اور تجربے کو بصیرت میں متحد کرتی ہے اور تعلقات اور زندگی کے معنی کے بارے میں فرد کی تفہیم کو بڑھاتی ہے۔
حکمت وہ ہے جو زندگی اور اس کے تجربات ہمیں سکھاتے ہیں۔ عقلمند ہونا ذہین ہونے جیسا نہیں ہے۔ یہ کسی کام کی مہارت اور مہارت سے کہیں زیادہ ہے۔ درحقیقت حکمت انسانی خوبیوں کے بارے میں ہے۔ یہ خوبیاں ہمدردی پیدا کر کرتی ہیں ہمدردی اور مہربانی رکھتی ہیں۔ اپنے خیالات، جذبات اور احساسات خود آگاہ ہوتی ہے۔ حکمت اور علم دونوں کے درمیان فرق بہت لطیف سا ہے۔ تاہم اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اسے سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ کوئی شخص علم حاصل کر سکتا ہے اور جان سکتا ہے کہ صحیح اور غلط کیا ہے۔ صحت مند کیا ہے اور غیر صحت بخش کیا ہے۔ کام کیسے انجام دینا ہے ، گاڑی کیسے چلانی ہے ، کھانا کیسے پکانا ہے۔ یہ سب چیزیں سیکھی جا سکتی ہیں اور ان میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، صحیح کو منتخب کرنے اور غلط کو چھوڑنے کی صلاحیت حکمت سے آتی ہے۔
علم اور حکمت کا موازنہ:
دوسرے الفاظ میں سیکھے ہوئے علم کو بہترین اور انتہائی اخلاقی طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت کو حکمت کہتے ہیں۔ علم کو استعمال کرنا اور جاننا حکمت ہے۔ علم دیا جا سکتا ہے لیکن دانائی اور حکمت نہیں دی جا سکتی۔ علم سیکھا جا سکتا ہے لیکن حکمت صرف حاصل کی جا سکتی ہے۔ علم منظم معلومات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ معلومات کی وسعت کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، حکمت عملی زندگی میں علم کو نافذ کرنے کا معیار ہے۔ علم فطرت میں منتخب ہے یہ صرف خصوصی معلومات کو محفوظ کرتا ہے۔ اس کے برعکس حکمت جامع اور مربوط ہے۔ علم عصبیت پسند ہے جبکہ حکمت عدم پابند ہے۔ علم کا نقطہ نظر نظریاتی ہے۔ اس کے برعکس حکمت روحانی نقطہ نظر رکھتی ہے۔ علم دماغ سے ویسا ہی تعلق رکھتا ہے جیسا روح کے ساتھ حکمت کا تعلق ہے۔
تجزیہ:
مثال کے طور پر ہر قسم کے خیالات چاہے مثبت ہوں یا منفی، صحت مند ہوں یا زہریلے، خوش ہوں یا اداس ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ ہم انہیں محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ احساسات انسانوں کا ایک بہت فطری حصہ ہیں۔ یہ علم ہے۔ لیکن ان خیالات کو سمجھنے، مشاہدہ کرنے اور آگاہ رہنے اور علیحدہ رہنے کے لیے دانشمندی یعنی کہ حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکمت ہمیں بہت اونچی سطح پر لے جاتی ہے اور اس پہیلی کا جواب دیتی ہے کہ ہم ایک خاص انداز میں کیوں محسوس کر رہے ہیں اور ہمیں ان جذبات پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس بات کا فیصلہ ہماری حکمت پر منحصر ہوتا ہے۔
فرقان اسلم
@RanaFurqan313