دولت کی خاطر کسی کا قتل کردینا ایساواقعہ ہے جو ہزاروں ،لاکھوں مرتبہ رونما ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔
تاہم Micheal Malloy کے قتل کا قصہ اس سلسلے میں بیحد دلچسپ بھی ہے اور عبرتناک و سبق آموز بھی۔
ملوئے 1873 میں آئرستان میں پیدا ہوا تاہم اس کی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں گزرا۔
امریکہ میں اس کی زندگی کوئی خوشگوار نہ تھی ۔ وہ پوری عمر گزر اوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام اور عارضی نوکریاں کرتا رہا ۔
1933 میں اس کی عمر 60 برس تھی اور وہ نیویارک کا رہائشی تھا۔
وہ ایک بےگھر اور شراب نوش انسان تھا جو ہر ممکن طریقے سے چند پیسے کما یا مانگ کر پھر انہیں شراب پینے میں اڑادیا کرتا تھا۔
ایک روز وہ ایک چھوٹے سے مقامی شراب خانے میں حسب معمول شراب نوشی میں مگن تھا کہ وہاں موجود تین لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی جو خود بھی وہاں شراب نوشی میں مگن تھے ۔ اور یہ تین تھے ٹونی مورینو (بار کا مالک ) اور اس کے دو دوست ڈینیئل اور فرینسس۔
یہ تینوں دوست کئی ماہ سے ملوئے کو اس بار میں آتے اور مدہوش حالت میں ایک طرف بیٹھ کر شراب پیتا دیکھ رہے تھے اور بعض دفعہ اسے از راہ ترحم اپنے خرچے پر شراب بھی پلوا چکے تھے۔
لیکن فرینسس کے دماغ میں ملوئے کو لے کر ایک خرافاتی منصوبہ چل رہا تھا۔۔۔۔اور وہ تھا تنہا ، بوڑھے اور بیمار شخص کی موت کے زریعے ایک بھاری رقم کمالینے کا۔ فرینسس نے اپنا یہ منصوبہ باقی دونوں دوستوں سے بھی شیئر کیا۔۔۔۔اس کے مطابق “میں ملوئے کے لیے ایک اچھی خاصی رقم کی انشورنس پالیسی خریدوں گا۔ پھر ہم اسے مفت میں جتنی شراب وہ پینا چاہے اسے اتنی پلادیا کریں گے۔ پہلے سے ہی بیمار اور بدحال ملوئے اس طرح ایک آدھ ماہ میں ہی کثرتِ شراب نوشی کے باعث لُڑھک جائے گا۔ اور انشورنس کی رقم ہم آپس میں تقسیم کرلیں گے”.
۔۔۔۔
چنانچہ اس منصوبے پر کام شروع ہوگیا ۔
انہوں نے اس پلان میں ایک چوتھے شخص جوزف مرفی کو بھی شامل کرلیا اور اس نے خود کو انشورنس کمپنی کے سامنے ملوئے کا بھائی ظاہر کرنا تھا۔
ان چاروں نے مشترکہ رقوم سے ملوئے کے لیے 3576 ڈالر کی ایک انشورنس پالیسی خریدی۔۔۔جس کا وصول کنندہ ملوئے کا جعلی بھائی مرفی تھا۔۔۔اس پالیسی کے تحت ملوئے کی موت پر انہیں ایک بھاری رقم وصول ہونا تھی جسے پھر وہ چاروں تقسیم کرلیتے۔
۔۔۔۔۔
چنانچہ اس منصوبہ پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور اگلے دن سے ہی وہ چاروں ملوئے کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آنے لگے اور اسے جی بھر کے مفت شراب پینے پلانے کی آفر بھی کی جسے ملوئے نے فوراً قبول کرلیا اور ایک کے بعد ایک پیگ پینا شروع ہوگیا۔۔۔۔ یہاں تک کہ مزید ایک قطرے کی بھی گنجائش باقی نہ رہی۔
اس رفتار سے اندھادھند شراب نوشی سے تو اسے مرنے میں محض چند روز ہی درکار تھے۔
لیکن۔۔۔۔ کئی روز گزر جانے اور سینکڑوں پیگ شراب کے بعد بھی اس کی موجودہ صحت میں معمولی سا بھی بگاڑ تک نہ دیکھنے کو آرہا تھا۔۔۔
صاف ظاہر تھا کہ پوری زندگی کثرت شراب نوشی کے باعث اب وہ اس کا عادی ہوچکا تھا۔
چنانچہ مزید کچھ دن گزر جانے کے بعد چاروں منصوبہ سازوں نے اسے ریگولر شراب دینے کے بجائے اسے میتھانول پلا دینے پر اتفاق کیا۔
اور اگلے روز انہوں نے اسے شراب کے نام پر میتھانول کے کئی پیگ پلا دیے۔۔۔۔ میتھانول کی دو پیگ کے برابر مقدار بھی انسان کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔ مگر حیرت انگیز طور پر ملوئے اچھی خاصی مقدار میں میتھانول پی جانے کے بعد بھی صحیح سلامت اٹھ کر بار سے چلا گیا ۔ اور اگلی شام وہ پھر سے بار میں تھا۔
۔۔۔۔ بری طرح سے جھنجھلاہٹ کے شکار چاروں منصوبہ سازوں نے اب کی بار اسے کچھ خراب ہوچکے اویسٹرز ، میتھانول میں پکا کر کھلا دیے ۔۔ لیکن مرنا تو دور اس کا معدہ تک خراب نہ ہوسکا۔
اگلے روز انہوں نے اسے سڑی ہوئی سارڈین مچھلی سے بنے سینڈوچز کھلائے کہ وہ فوڈ پوائزنگ کا ہی شکار ہوجائے۔۔۔۔مگر یہ کوشش بھی لا حاصل رہی۔
وہ ابھی بھی روزانہ بار آتا اور کئی گھنٹے اچھی خاصی مقدار میں شراب ڈکوس کر صحیح سلامت واپس چلا جاتا۔
ایک طرف ان چاروں ساتھیوں نے اس کی لائف انشورنس پالیسی خریدنے میں اپنی بھاری رقوم خرچ کر ڈالی تھیں تو دوسری طرف ملوئے روزانہ کی بنیاد پر شراب کی مد میں ان کا اتنا خرچہ کروا رہا تھا کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مالی طور پر مزید سے مزید تنگ ہوتے چلے جارہے تھے۔
۔۔۔۔
تنگ آکر ان چاروں نے شراب والا طریقہ کار منسوخ کرکے کسی دوسرے طریقے سے اسے ٹھکانے لگانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔۔۔۔اور نئے منصوبے پر اتفاق ہوجانے کے بعد ایک شدید سرد رات وہ چاروں اسے ٹُن حالت میں کار میں ڈال کر کافی دور لیجا کر کھلے آسمان تلے برفباری کے دوران ڈال آئے تاکہ وہ ٹھٹھر کے مر جائے ۔
لیکن۔۔۔۔۔ٹھیک اگلی شام ملوئے پھر سے بار میں پہنچ چکا تھا اور مزید شراب کا طلبگار تھا۔
اسے شراب فراہم کرنے کے بعد پھر سے چاروں دوست اس مسئلے کا کوئی حتمی حل نکالنے کی گفتگو میں جت گئے۔
چند روز بعد ایک رات ان میں سے ایک دوست نے ملوئے کو اپنی کار سے ٹکر مار دی کہ جب وہ بار سے واپس جارہا تھا۔
اور۔۔۔۔۔ اگلے روز ملوئے بار میں نہ آیا۔
خوشی اور اطمینان کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ انہوں نے باری باری تمام مقامی ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں فون کرکے گزشتہ رات کسی جار حادثے کے بعد لائی جانی والی لاش سے متعلق استفسار کیا۔۔۔۔۔لیکن ہر جگہ سے انہیں نفی میں ہی جواب ملا ۔
اور ۔۔۔۔ پانچ دن بعد ملوئے پھر سے بار میں تھا ۔ محض اسے کچھ پٹیاں لگی ہوئی تھیں جوکہ اس کے زخمی ہونے کی غماز تھیں۔
فرسٹریشن ، غصے اور مایوسی کی ملی جلی کیفیات میں ابل رہے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار وہ ملوئے کو تبھی چھوڑیں گے کہ جب اس کے دم توڑنے کا یقین ہوچکا ہو۔
وہ چاروں پے در پے ناکامیوں اور بھاری مالی خسارے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں مکمل قلاش ہوجانے کے خوف تلے اب نیم پاگل پن کو پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
22 فروری 1933۔
اس رات جب ملوئے شراب نوشی ختم کرچکا تو وہ اسے مدہوش حالت میں مرفی کے کمرے میں لے گئے۔۔۔وہان انہوں نے اس کے منہ میں ایک گیس پائپ ڈالا اور اس کے منہ کو کپڑے کی مدد سے سختی سے باندھ دیا۔
اور۔۔۔۔اب کی بار۔۔۔۔ ملوئے جانبرد نہ ہو پایا۔ ایک گھنٹے کے اندر اس کی موت ہوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار ملوئے کو مار ڈالنے کے بعد جب مرفی ، انشورنس کی رقم لینے کے لیے کمپنی کے آفس پوچھا اور اس نے کمپنی کو “اپنے بھائی” کی موت سے آگاہ کیا۔
جب کمپنی کے نمائندے نے اس سے پوچھا کہ “ملوئے کی موت کیسے ہوئی ؟ تو وہ بری طرح سے بوکھلا گیا۔۔۔۔ اپنی فرسٹریشن میں وہ چاروں سے بھول گئے تھے کہ انشورنس پالیسی “حادثاتی موت” سے متعلق تھی ۔۔۔
جب مرفی ، کمپنی نے نمائندے کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا اور بوکھلاہٹ کے عالم میں بار بار بیان بدلنے لگا اور گھبراہٹ آمیز رویہ اختیار کر ے لگا تو نمائندے نے مشکوک ہوکر پولیس کو طلب کرلیا۔۔۔۔
ملوئے کی لاش مرفی کے کمرے سے برآمد کر لی گئی۔۔۔۔۔۔لاش کے طبی تجزیے سے فوراً یہ ثابت ہوگیا کہ یہ سوفیصد ایک قتل کی واردات ہے “ورنہ ایک غیر متعلقہ شخص مرفی کے کمرے کی چابی حاصل کرکے اس میں داخل ہوکر کمرے کا گیس پائپ اپنے منہ میں ڈالنے کے بعد اپنے چہرے پر کپڑا کَس کر باندھ لینے سے تو رہا”.
۔۔۔۔
چاروں مجرموں کو فی الفور گرفتار کرلیا گیا۔۔۔
مختصر عدالتی کارروائی کے بعد ان چاروں پر مائیکل ملوئے کا قتل ثابت ہوگیا۔
چاروں جو برقی کرسی کے زریعے موت کی سزا سنادی گئی۔۔۔۔اور اس طرح اپنی حرص و ہوس کی بدولت وہ چاروں اپنی دولت اور سکون کے بعد جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔