ظفریات میں خوش آمدید
زندگی نے تجربات و حوادث اور مشاہدات کی صورت میں جو کچھ مجھے دیا ہے، اسے تحریر کی صورت میں واپس کرنے کا نام ظفریات ہے۔
معاشرے کی تعمیر میں ہم اس طریقے سے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں کہ وہ تجربات دوسروں کی راہنمائی کے لئے چھوڑ جائیں جو نئے آنے والوں کے لئے معاون ہوں۔
مجھ سے توقع نہ رکھیں کہ بہت اعلٰی درجے کی گفتگو ہو گی البتہ یہ ضرور یقین رکھیں کہ یہاں افسانے نہیں ہوں گے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی تحریریں ہوں گی۔
آج میں “شوق آوارگی” کے سلسلے کی ابتدا کر رہا ہوں اور پہلا پڑاؤ ممبئی ہے، جس کا پرانا نام بمبئی تھا۔ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں جب مجھے ممبئی جانے کی اطلاع دی گئی تو ذہن دو حصوں میں بٹ گیا، ایک طرف ہندوستان جانے کی خوشی کہ کشمیری ہونے کے ناطے میرا عام حالات میں وہاں جانا بہت مشکل تھا۔ دوسری جانب ہندوستان کے اقلیتوں کے ساتھ مظالم اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ فسادات کی وجہ سے روایتی دشمنی ایک انجانے خوف کا احساس تھا جو وہاں جانے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ بالآخر شوق آوارگی نے سبقت لی اور میں نے ممبئی جانے کی حامی بھر لی۔
ضروری دستاویزات مکمل کرنے کے بعد ہمارے نمائندے نے ہندوستان ایمبیسی میں ویزے کیلئے درخواست دے دی۔ ایک بین الاقوامی ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے ہمیں عام طور پر ویزہ کیلئے خود نہیں جانا پڑتا تھا لیکن درخواست کی جانچ پڑتال کے بعد ویزہ افسر نے حکم جاری کیا کہ مجھے بہ نفس نفیس انٹرویو کیلئے اسلام آباد آنا پڑے گا۔ گویا پہلی رکاوٹ سامنے آ گئی اور ممبئی مجھے دور نظر آنے لگا۔ خیر مقررہ تاریخ اور وقت پہ میں ایمبیسی پہنچ گیا جہاں سب سے پہلا ٹاکرہ سول لباس پہنے ہوئے خفیہ ادارے کے اہلکارسے ہوا جس نے مجھے ایک فارم دیا جس میں دیگر ذاتی معلومات کے علاوہ مجھ سے ہندوستان جانے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ گویا ریڈار پہ میرا نام آ گیا تھا۔ ایمبیسی اہلکاروں سے تعارف کرایا تو بہت احترام سے مجھے عام لوگوں کی لائن کے بجائے اندر آنے کو کہا ، میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا کہ آپ کا انٹرویو الگ کمرے میں ہو گا اور ویزہ افسر کے علاوہ ایک سینئر سفارتکار بھی موجود ہوں گے۔ مختلف بھول بھلیوں سے گزرنے کے بعد میں ایک عالیشان دفتر میں داخل ہوا جہاں دو لوگ پہلے سے موجود تھے۔ سینئر اہلکار نے پہلے تو مجھ سے معذرت کی کہ انٹرویو کیلئے زحمت دینی پڑی اور پھر چائے کی آفر کی جو میں نے قبول کر لی۔ چائے بھی یقیناً پہلے سے ہی تیار تھی کہ چند لمحوں میں پیش کر دی گئی۔ اس دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے یہاں کیوں بلایا گیا ہے۔۔۔
“صاحب آپ کشمیری ہیں اور آپ پیدا بھی آزاد کشمیر میں ہوئے ہیں اور آپ نے اپنے نام کے ساتھ بھی کشمیری لکھا ہوا ہے، اس لئے آپ سے ملنا اور دورے کی وجوہات جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے “۔ میں نےچائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اپنےممکنہ جواب کا جائزہ لیا اور پھر کہا “آپ کو تو علم ہونا چاہئے کہ اگر میرا ہندوستان جانے کا کوئی اور مقصد ہوتا تو اس کے لئے میں ویزہ کے چکر میں نہیں پڑتا۔ میں اسی کام سے جا رہا ہوں جو میں نے لکھا ہے۔ ” چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے میں اس کے سوال اور اپنے جواب کا جائزہ لینے لگا اور یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ ممبئی واقعی بہت دور ہے۔ مزید کوئی سوال نہیں ہوا اور چند منٹ ہم تینوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ چائے کے برتن اٹھائے جانے کے بعد سکوت ٹوٹا اور ان صاحب نے ویزہ افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “ڈار صاحب ایک شریف اور معزز انسان نظر آتے ہیں اور مجھے ان کو ویزہ نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آ رہی اسلئے آپ ان کو ویزہ ایشو کر دیں” گویا میرے ویزہ پر اس افسر کو اعتراض تھا جو مجھے پہلے ہی بال ٹھاکرے کا بالک لگ رہا تھا۔ وہ بغیر کوئی بات کئے وہاں سے اٹھ کے چلا گیا۔ اس دوران ان صاحب نے ایک کاغذ پر اپنا نام اور نمبر لکھ کر دیا کہ اگر کوئی مشکل یا آئندہ کوئی مسئلہ ہو تو میں ان سے بات کر لوں۔ انہوں نے منقسم اقوام کے درمیان پیدا ہونے اختلافات اور مسائل پر ایک مناسب گفتگو کی اور مجھ سے درخواست کی کہ میں ہندوستان میں پاکستانی ایمبیسی تک یہ پیغام پہنچاوں کہ وہ ہندوستانیوں کو ویزہ دینے میں مشکلات نہ پیدا کریں تو یہاں سے بھی آسانیاں ہوں گی۔ مجموعی طور پر مجھے اس سینئر اہلکار کا رویہ اور گفتگو کا انداز اچھا لگا۔
وہاں سے مجھے دوبارہ ویزہ افسر کے پاس لے جایا گیا، جس نے پاسپورٹ میرے حوالے کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ممبئی پہنچ کر مجھے پولیس اسٹیشن میں اندراج کرانا ہے اور جس شہر میں بھی جاؤں گا وہاں کے نزدیکی پولیس اسٹیشن میں بھی اندراج کرانا ہو گا۔ اس طرح اس نے مجھے پریشان کرنے کا ایک راستہ نکال لیا، آخر ہندوستانی تھا۔۔۔
کراچی سے ممبئی کی فلائٹ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ہے۔PIA کی اس پرواز میں زیادہ تر کھیپئے، بوہری و میمن حضرات اور چند ہندوستانی جو عرب امارات سے منسلکہ فلائٹ لے رہے تھے، موجود تھے۔ میرے ساتھ اتفاق سے پاکستان ٹی وی اور فلم کےایک نامور اداکار تھے اسلئے سفر خوشگوار گزرا۔ ممبئی ایئر پورٹ پہنچ کر سب کو ایک فارم تھما دیا گیا، ہمارے ہیرو نے بتایا کہ انہیں استثنا حاصل ہے اسلئے وہ فارم فل کئے بغیر جلدی چلے جائیں گے اور ہمارا ساتھ یہیں ختم ہے۔ میں جب فارم مکمل کر کے امیگریشن لائن میں پہنچا تو وہ واپس آ رہے تھے اور اپنی میزبان اداکارہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ میں نے مسکراتے ہوئے انہیں لائن کے آخر میں کھڑے ہونے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔۔۔ غرور کی سزا کتنی جلد مل جاتی ہے، انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا۔
ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو پرانی ٹیکسیوں کی لائن سے نکل کر ایک صاحب میری طرف آئے اور میرا نام پوچھا ۔۔۔ مسٹر ظفر ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا ، مسٹر سالین ۔۔۔ جو کمپنی میں ایڈمن منیجر تھے۔ مجھے ائرپورٹ سے ہوٹل ڈراپ کرنے کی ذمہ داری ان کی تھی اور پولیس اسٹیشن میں اندراج بھی انہوں نے ہی کرانا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی سالین نے اپنی حکومت کی ایسی تیسی پھیرنی شروع کر دی اور اس پالیسی پر شدید تنقید کی جس کے تحت پاکستانیوں کو تھانے میں اندراج کرانا پڑتا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی اور بتایا کہ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اسلئے ٹینشن کی کوئی بات نہیں۔ سیدھا پولیس اسٹیشن کا قصد کیا ، دوران سفر میں نے پوچھا کہ مجھے کیسے پہچانا تو اس نے کہا “سر ۔۔۔ میں نے ایک تصور بنایا ہوا تھا کہ ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس شخص ہوں گے آپ کیونکہ ٹریننگ منیجر ہیں۔ آپ کو دیکھتے ہی میں نے اندازہ لگا لیا تھا اسلئے میں نے پلےکارڈ گاڑی میں ہی چھوڑ دیا تھا”۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں casual ڈریس میں نہیں تھا ورنہ ممبئی والوں پر پہلا امپریشن ہی خراب پڑ جانا تھا۔
تھانے میں تقریباً سارے ہی مسافر پہنچ گئے تھے اور ایک لمبی قطار ہماری منتظر تھی۔ ایک سرسری جائزہ لینے کے بعد سالین اندر گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد ایک پولیس افسر کے ساتھ واپس آیا جو مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا اور ائرکنڈیشنڈ کمرے میں بٹھا دیا۔ چند منٹ بعد ایک حسین خاتون (حسین اضافی ہے) میرے ہی فل کئے ہوئے فارم پر مختلف دستخط اور مہریں لگا کر لے آئی، اور مجھے تفصیل سے قانون کی پابندی کی ہدایات دے کر جانے کی اجازت دی۔ “آپ کو یہاں آ کر جو زحمت ہوئی اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ قانونی مجبوری ہے۔ ” کہہ کر اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا، کسی ہندوستانی خاتون کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر میں نے دائیں بائیں دیکھا ۔۔۔ اور پھر مادھوری ڈکشت کا تصور قائم کر کے مصافحہ کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ سالین اس توہین کو برداشت ہی نہیں کر سکا اور بنا انتظار کئے ایک موٹی گالی اگل کے بس یہی کہہ پایا “ہندوستانیوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے مصیبت پڑ رہی تھی”۔ میں یہ سن کے مسکرایا کہ واقعی بہت سی قدریں ہم میں مشترک ہیں اور اسے تسلی دی کہ ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوا وہ ایک پولیس والی کا کھردرا ہاتھ تھا۔ میں نے سالین کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے مجھے لمبی لائن میں انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اس نے کہا میرا کوئی کمال نہیں سر، گاندھی جی کی تصویر کا شکریہ ادا کریں۔
سالین نے مشورہ دیا کہ کھانا کھا کے ہوٹل چلیں تاکہ آپ تھوڑا آرام کر لیں اور میں دفتر کا چکر لگا کے شام کو آپ کے پاس آ جاؤں گا۔ میں نے اتفاق کیا اور وہ مجھے ایک ساوتھ انڈین ریسٹورنٹ میں لے گیا۔ چونکہ وہ ساوتھ انڈین تھا اسلئے اس کا خیال تھا کہ ممبئی والوں کو کھانا پکانا نہیں آتا۔ اس نے اپنی پسند کا کھانا آرڈر کیا ، مجھے ڈشز کے نام کا اندازہ نہیں ہوا لیکن ایک مچھلی تھی اور ایک سبزی ۔۔۔ کمال کا زائقہ تھا میں نے سیر ہو کر کھانا کھایا ۔ اس نے ویٹرز کو بتایا کہ پاکستانی مہمان ہیں تو انہوں نے واقعی بہت مہمان نوازی کی۔ یہاں تک پہنچ کر میرا ہندوستانی عوام کے بارے میں بنا ہوا تصور تبدیل ہونے لگا اور بالآخر ہم ہوٹل پہنچ گئے۔
ہوٹل میں شاندار روایتی انداز میں استقبال کیا گیا، خوبرو حسیناوں نے آرتی اتاری اور ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے کسی کا تصور نہیں کرنا پڑا ۔۔۔ بس دکھ ہو رہا تھا کہ ہندوستانی میزبان کو کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔
اس شوق آوارگی کا بقیہ احوال اگلی قسط میں۔ اپنی رائے ضرور دیجئے گا۔
تحریر: ظفر ڈار<br @ZafarDar
انتظار رہے گا