جب نواز شریف نے ممتاز قادری شہید کو پھانسی دی اور میڈیا پر اس کے جنازے کی کوریج پر پابندی تھی، اس وقت میں اور میرے متعدد احباب لبیک کی ہر لحاظ سے آواز بنے۔ ہم نے بساط بھر کوشش کی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے پیغام کو پھیلایا جائے۔ اگرچہ مولانا خادم رضوی مرحوم عوامی طور پر معروف گالیاں دیتے تھے لیکن بالعموم سوشل میڈیا پر موجود لبیکی اس وقت صرف بابا جی کی تقاریر کے کلپس ہی شئر کرتے تھے اور یہ گالیاں دینے والے اس وقت نہیں تھے۔
بلا شبہ ممتاز قادری نے سارے بریلوی مسلک کو زندہ کر دیا تھا اور میں خود سمجھتا تھا کہ مولانا خادم رضوی نے اس مسلک کو ایک جاندار قیادت دی ہے۔ انہیں ان کے ہمدرد کہتے رہے کہ جناب گالیاں نہ دیا کریں، بہت سے لوگ محض اس وجہ سے آپ کو سپورٹ نہیں کر رہے۔ لیکن مولانا صاحب قادری کی لاش پر سادہ لوح بریلویوں کو جمع کر چکے تھے سو نہیں مانے۔
فیض آباد دھرنے کے دوران میں پنڈی میں تھا، لبیک کی ہٹ دھرمی پر بیشتر علماء نے خود کو پیچھے ہٹا لیا لیکن پھر بھی ہمدردی جاری رکھی۔ اس دوران سوشل میڈیا پر یہ کافی متحرک ہو چکے تھے۔ دھرنے کی غیر ضروری طوالت اور قائدین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے عوام کے روزمرہ معمولات زیادہ متاثر ہونے لگے تو عوام کافی حد تک مایوس ہوئی۔ دھرنے پر آپریشن ہوا تو لوگوں نے عملی طور ساتھ چھوڑ دیا۔ لبیک اپنی موت مر چکی ہوتی لیکن کچھ مصلحت کاروں نے ارباب اختیار سے انہیں فیس سیونگ کا راستہ دلا دیا جس میں خود شہباز شریف شامل تھے جو نواز شریف کی سوچ سے اختلاف رکھتے تھے اور اپنے مستقبل کیلئے بریلوی علماء و مشائخ کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔
خیر انہیں عزت سے دھرنا ختم کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اسے کیش کیا اور مزید منظم ہو گئے۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی جس سے یہ جماعت مضبوط ہوئی اور بعد ازاں رضوی صاحب کی وفات کے بعد اس کی ہئیت تبدیل ہو گئی۔
بریلوی چونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسلک ہے اور یہ کبھی بھی متشدد نہیں رہے اور نہ ہی علامہ شاہ احمد نورانی کے بعد متحد ہوئے تھے لہٰذا عوام جوق در جوق لبیک کا حصہ بنتے گئے۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سیاست میں بھی زیادہ فعال ہو سکتے ہیں۔ جبکہ علماء نے ایک فاصلہ قائم کر لیا اور یا تو خاموش حمایت کرتے رہے یا صرف ضرورت کے وقت۔ اس کے برعکس بہت سے باشعور لوگ جو لبیک کے بدلتے ہوئے انداز دیکھ کر اس کے نظریات اور سوچ میں ممتاز قادری مشن سے روگردانی اور سیاست میں پیشقدمی کے دیگر مقاصد محسوس کر رہے تھے اس سے دور ہونے لگے۔
کوئی بھی تنظیم جب مقبولیت کی اس سطح پر پہنچ جاتی ہے تو شیطانی قوتیں اس پر حملہ آور ہوتی ہیں، لبیک میں بھی ایسے شر پسند اور شیطانی عناصر شامل ہو گئے جو بظاہر ان جیسے ہی نظر آتے تھے۔ یہ لوگ موقع کا انتظار کرتے ہیں اور بھرپور وار کر کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے طاقت اور اختیار انسان کیلئے بڑا امتحان ہوتے ہیں لبیک کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ طاقت کے نشے نے اس تنظیم کے اغراض و مقاصد تبدیل کر دئے۔ اب میڈیا بھی ان کو مناسب کوریج دینے لگا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ان لوگوں نے بےشمار فیک اکاؤنٹ بنا کے اپنی تشہیر شروع کر دی جن میں اکثر اکاؤنٹ لڑکیوں کے فرضی ناموں سے بھی بنے۔ الغرض وہ جماعت جو بنیادی طور پر ممتاز قادری کو تختہ دار سے بچانے کیلئے بنی تھی، وہ اس کی شہادت کے بعد ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر ابھری۔
2018 کے الیکشن میں کثیر تعداد میں ووٹ لینے کے باوجود نہایت قلیل تعداد میں نمائندگی حاصل کرنے کی وجوہات میں ضد، ہٹ دھرمی اور خود کو بہت طاقتور سمجھنے کے نشے کے علاوہ پختگی کا فقدان اور کارکنوں کی تربیت کی کمی بھی تھی۔
اس غیر متوقع نتیجے کے بعد بظاہر لبیک کو قائم رکھنا مشکل کام تھا لیکن ملعونہ عاصیہ کی رہائی کے عدالتی احکامات اور اس پر عملدرآمد کی حکومت کی یقین دہانی نے لبیک میں ایک نئی روح پھونک دی۔ موجودہ حکومت کی اس وقت بہترین حکمت عملی سے یہ فتنہ ختم ہوا تو فرانس کے صدر کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے آکسیجن کی لامتناہی فراہمی شروع ہو گئی۔ اس مدعے نے اپنی حساسیت اور حضور اکرم ﷺ کی حرمت کیلئے جان قربان کرنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشتعل کر دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان شر پسند عناصر کو بھی موقع فراہم کر دیا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ فرانس کے خلاف دھرنا دے کر اپنے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچانا ، لوٹ مار، قتل وغارت اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو تباہ وبرباد کر کے انہی عناصر نے اپنے آقاؤں کو خوش کیا جبکہ تحریک لبیک ان کی معاون بنی۔
موجودہ حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کا لبیک کے پاس کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا۔ وزیراعظم نے اقوام عالم کے ضمیر کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کے سربراہان کو بھی جھنجھوڑا ہے کہ وہ متحد ہو کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اگر موجودہ حکومت یہ قابل ذکر اقدامات نہ کرتی تو ہر پاکستانی اس کے خلاف کھڑا ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان کے بروقت اور مناسب ردعمل سے ملک کی مجموعی عوام مطمئن ہے اسلئے کسی بھی ایسے اقدام کی کوئی گنجائش نہیں جو ملک سے زیادہ دشمنوں کو فائدہ پہنچائے۔
موجودہ صورتحال میں لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کیلئے ربیع الاول کے جلسے کو ہائی جیک کرنا اور وطن دشمنوں کے لئے راہ ہموار کرنا، اس تنظیم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔
اللہ پاکستان کو شر پسندوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar