گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ممبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل کی چکاچوند مجھے کمرے میں جانے سے روک رہی تھی کہ کہیں منظر بدل نہ جائے لیکن کمرے میں جانا بھی ضروری تھا۔
ایک مہ جبیں کی ہمراہی میں جب لفٹ کی جانب بڑھے تو سالین نے عافیت سمجھی کہ وہاں سے رخصت ہو جائے۔ لفٹ میں جاتے ہوئے ہوٹل کی گیسٹ ریلیشنز آفیسر نے ہوٹل میں موجود سہولیات کے بارے میں وضاحت کی۔ میں نے اپنے پاسپورٹ کے بارے میں پوچھا جو کہ ریسیپشن پر چھوڑ دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک رجسٹریشن فارم پر کرنے کے بعد پاسپورٹ مجھے واپس مل جائے گا۔ ایک پاکستانی ہونے کے باعث میری نقل و حمل اور موجودگی کی اطلاع کسی سرکاری ادارے کو مہیا کرنا ہوٹل کی ذمہ داری تھی۔
گیارہویں فلور پر میرے کمرے کا دروازہ کھول کر اس نے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا اور پھر خود اندر آنے کے بعد دروازہ بند کر دیا۔ ایک خوبرو حسینہ کے ساتھ ایک کمرے میں بند ہونے کے تصور سے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ میں خود کو کم از کم عمران ہاشمی کے روپ میں دیکھ رہا تھا کہ شاید کوئی فلمی سین ہو جائے، آخر ہم بالی وڈ میں تھے۔۔۔
ممکن ہے آپ کی دھڑکنیں بھی تیز ہو رہی ہوں لیکن پرسکون ہو جائیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ اس نے کمرے میں موجود سہولیات کے بارے میں وضاحت کی اور میرے کئی سوالوں کے محتاط اور پیشہ ورانہ انداز میں جواب دئے۔ اگرچہ میرے سوالات محض کمرے میں موجودگی کی مدت بڑھانے کا بہانہ تھے کہ شائد چابی کھو جائے لیکن چابی ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میں ایک اور سوال بھی پوچھنا چاہتا تھا لیکن پھر میں نے خود کو کنٹرول کیا اور وہ سوال پوچھنے سے گریز کیا۔ (امید ہے آپ بھی وہ سوال نہیں جاننا چاہیں گے)۔ اس نے جانے کی اجازت مانگی اور اس سے پہلے کہ میں ہاتھ ملانے کیلئے پہل کرتا اس نے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر نمستے کہا اور روانہ ہو گئی، یوں اس نے مجھے ایک غیر محرم خاتون کے ساتھ ہاتھ ملانے کی پریشانی سے محفوظ رکھا۔ اس کے جانے کے بعد مجھے کسی چیز کی ضرورت پڑی تو یہ احساس ہوا کہ میں نے اس کی مکمل گفتگو صرف دیکھی تھی، سنی نہیں تھی۔ میں دل ہی دل میں مسکرا دیا ۔۔۔ آپ بھی مسکرائیے 🤣۔
کمرے میں بیٹھنے کا بالکل موڈ نہیں ہو رہا تھا سو میں تھوڑا تازہ دم ہونے کے بعد ممبئی یاترا کیلئے نکل پڑا۔ باہر کا موسم بالکل کراچی جیسا ہی تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ گیٹ وے ٹو انڈیا اس ہوٹل کے نزدیک ہے لیکن میں نے ٹیکسی لینا مناسب سمجھا۔ قطار میں آگے کھڑی فیٹ ٹیکسی میں بیٹھا تو اس نے باہر لگا میٹر گھما دیا اور ہم چل پڑے. یہاں ٹیکسی میٹر پر چلنے کی پابند ہے اسلئے کرایہ طے کرنے اور لوٹے جانے کے امکانات کم ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہاز ہندوستان کی سرزمین میں داخل ہوئے تھے۔ انڈیا گیٹ دہلی میں بھی ہے جہاں سے مغلوں اور افغانیوں نے ہندوستان کو فتح کیا تھا۔ مجھے عجیب لگا کہ اس قوم نے شکست کے مقامات کو بھی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا ہوا ہے۔سیاحوں کا ایک جم غفیر تھا جس میں نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ میں بھی ہجوم کا حصہ بن گیا، اجنبیت کا احساس ختم ہو گیا کیونکہ سب ہی اجنبی تھے اور اپنی دنیا میں مگن تھے۔ مغرب کی آزان کی آواز نے مجھے متوجہ کیا اور میں لوگوں سے راہنمائی لیتا ہوا ایک قریبی مسجد میں پہنچ گیا۔ ایک خوبصورت مسجد جہاں بظاہر کوئی ٹینشن نہیں تھی لیکن اکثر لوگوں کے چہرے پہ تازگی نہیں تھی۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ میں پاکستانی ہوں اور میں نے بھی مناسب نہیں سمجھا کسی سے تعارف کراؤں۔ مجھے لگتا تھا کہ پاکستانی سے سلام دعا کر کے وہاں کے مسلمان کسی پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کی کثیر تعداد دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ ممبئی میں مسلمانوں کی مناسب آبادی ہے۔
ممبئی کی زندگی بہت مصروف ہے کراچی کی طرح، سڑکیں بھی اسی طرح گنجان اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہر جگہ نظر آئیں گی۔ لوگوں کو کام کاج پر جانے کیلئے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں اسلئے عموماً لوگ سٹریس میں نظر آتے ہیں، ماسوائے نوجوان جوڑوں کے جو دن بھر اپنے کاموں میں مصروف رہنے کے بعد شام کا وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ ساحل سمندر سے لیکر سینما ہالوں اور دیگر پبلک مقامات پر “میرا جسم میری مرضی” نما قابل اعتراض حرکات میں مشغول ان نوجوانوں کو دائیں بائیں کسی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کو تھوڑی پرائیویسی دستیاب ہو وہ اپنی حد سے بھی باہر نکل جاتے ہیں مریم نواز شریف کی طرح۔ مجھے بہرحال ان کی کسی بھی حرکت پہ کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ میں تو کوشش کرتا رہا کہ ہر منظر کا قریبی جائزہ لوں۔
وہاں مجھے کراچی بیکری بھی نظر آئی جیسے حیدرآباد میں بمبئی بیکری مشہور ہے، اور ایک عالیشان کشمیری قالینوں کی دکان بھی جسے نظر انداز کرنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ دکان میں داخل ہوتے ہی کشمیری زبان میں گفتگو سن کر میں رک گیا گویا اصلی کشمیری تھے۔ ایک سیلزمین نے اپنی طرف متوجہ کیا اور قالینوں اور شالوں کے قصیدے پڑھنے لگا، میں نے ایک چھوٹے سے غالیچے کی قیمت پوچھی اور 5 لاکھ سن کر مجھے اپنے کانوں پر شک ہونے لگا۔ میرے حواس اس وقت بحال ہوئے جب اس کے سپروائزر نے سیلزمین کو کشمیری زبان میں کہا کہ تم نے چائے کا کیوں نہیں پوچھا؟ میں تھوڑا سکون میں آ گیا کہ چائے پی کے یہاں سے نکلوں۔ سیلزمین نے مجھے بتایا کہ وہ اسپیشل کشمیری چائے پلانا چاہتے ہیں جو نمکین ہوتی ہے لیکن اگر میں چاہوں تو چینی ڈال کے بھی دے سکتے ہیں۔ میں نے نمکین چائے پینے کی حامی بھر لی ، خالص کشمیری چائے کے دو کپ پینے کے بعد میں نے ان سے لاہوری اسٹائل میں دوبارہ آنے کا وعدہ کیا اور رخصت لی۔
سالین کے آنے کا وقت قریب تھا ، میں نے ٹیکسی لی اور ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ اکیلے باہر نکل کر مجھ میں تھوڑا اعتماد آ گیا تھا اسلئے میں نے ڈرائیور سے گپ شپ شروع کی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے پاکستانی ہونے کا انکشاف کیا تو وہ بہت تپاک سے ملا۔ راستے میں اس نے کئی جگہوں پر رک کے یہ بتایا یہ وہ جگہ ہے جہاں فلاں فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی، اس ہسپتال میں امیتابھ بھچن کئی روز داخل رہا، یہاں قریب وہ میدان ہے جہاں سچن ٹنڈولکر کرکٹ کھیلتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یوں لگ رہا تھا کہ سب کا پسندیدہ موضوع بالی وڈ ہے یا پھر کرکٹ، آنے والے دنوں میں اس خیال کو مزید تقویت ملی۔
ہوٹل پہنچا تو سالین انتظار میں تھا، وہ رات کے کھانے کیلئے مجھے لینے آیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ابھی صرف 8 بجے ہیں اور کراچی میں ہم 11 بجے سے پہلے کھانا نہیں کھاتے۔ اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا اور بتایا کہ ڈنر 10:30 پر ہی کریں گے لیکن اس سے پہلے تھوڑا enjoyکریں گے۔۔۔
اس کے enjoy کہنے سے جو تصور میرے دل میں آیا، وہ ایسا ہی تھا جیسا ابھی آپ کے ذہن میں آیا ہو گا 🤫۔
اس کی تفصیل اگلی قسط میں، اپنی رائے کا ضرور اظہار کیجئے گا تا کہ آپ کو “وہ” قصے بھی سناؤں جو آپ سننا چاہتے ہیں۔
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar
مدت کے بعد ایک اچھا ادب پڑ ھنے کو ملا ہے …ترس گئے ہیں ادب کو