تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
پھر کیا ہوا ؟
پھر ہوا یہ کہ ” تمام شاہی ” دایہ ” تھک کر بیٹھ گئیں مگر موسیٰ علیہ السلام نے کسی ایک کا دودھ نہ پیا ، یہ سارا حال موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ ” مریم ” دیکھ رہی تھیں۔ اور جب دیکھا کہ شاہی محل کے تمام لوگ سخت تشویش اور بڑے فکر میں ہیں تو انہوں نے کہا :
اگر اجات ہو تو میں ایک ایسی دایہ کا پتہ بتاؤں جو نہایت نیک اور بہت پاکیزہ طبعیت والی ہے وہ اس کی خدمت کے لئے بہت موزوں معلوم ہوتی ہے امید ہے کہ وہ اس بچہ کو بخوشی پرورش کرسکے گی چونکہ بادشاہ کے گھر سے انعام و اکرام کی بڑی توقعات ہونگی اس لئے تربیت میں کوتاہی نہیں کریگی بلکہ حکم ہوتو میں خود اس کو ساتھ لے کر آؤں ؟
فرعون کی بیوی آسیہ نے اُس دایہ کولانے کا حکم دے دیا اور موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ خوش خوش گھر روانہ ہوئیں کہ ” والدہ ” کو لے کر آئیں۔
یہاں یہ گفتگو ہورہی تھی اور اُدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا بُرا حال تھا ﷲ کے حکم سے بچہ کو دریا میں ڈال تو آئیں مگر ماں کی مامتا کہاں چین سے رہنے دیتی۔
رِہ رِہ کر موسیٰ علیہ السلام کا خیال آتاتھا دل سے قرار جاتارہا ۔
موسیٰ علیہ السلام کی یاد کے سِوا کوئی چیز دل میں باقی نہ رہی ۔ کیوں کہ شیطان مردود نے اُن کے دل میں وسوسہ ڈالڈیا تھا کہ تم نے اپنے معصوم بچہ کو دریا میں ڈالاہے اب تک اس کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ اپنے بچہ کو دریائی جانوروں کی جان بوجھ کر خوراک بنادیا۔ اس وسوسہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ﷲ کا وعدہ بھول گئیں اور بے حد پریشان اور مغموم ہوگئیں قریب تھا کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا اور اپنے اس راز کو فاش کردیتیں اور یہ بات ظاہر کربیٹھتیں کہ
” میں نے اپنا بچہ دریا میں ڈالاہے ، کسی کو خبر ہوتو لاؤ ”
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اسی بے چینی حالت میں تھیں کہ ﷲ تعالیٰ نے ان پر اپنا فضل فرمایا اور اپنا وعدہ یاد دلاکر ان کے قلب کو مطمئن کردیا اور اس طرح صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا تھا کہ ” خدائی راز ” قبل از وقت کھلنے نہ پائے اب والدہ ﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد کے انتظار میں تھیں کہ اچانک اپنی بیٹی نے آکر پوری داستان کہہ سنائی اور بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے کسی دایہ کا دودھ نہ پیا تو میں نے کہا :
” اسرائیلی قبیلہ کی ایک نہایت شریف اور نیک عورت ہے وہ اس بچہ کو اپنی اولاد کی طرح پرورش کرسکتی ہے۔”
تو فورا فرعون کی بیوی نے یہ سُن کر مجھ کو حکم دیا کہ فورا آپ کو لے کر آؤں یہ ہم پر خدا کا بڑا احسان و فضل ہوا ، اب آپ چل کر اپنے بچہ کو سینے سے لگائیں۔ اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اُس نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔
دیکھا آپ نے کہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ﷲ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین کیا اور اُس کا حکم مانا اور اُس کے فرمان پر عمل کیا تو ﷲ تعالیٰ نے ان کے دل میں کیسا صبر ڈالدیا اور کس طرح اُن کو اطمینان و سکون کی نعمت سے نوازا اور کس طرح اپنا وعدہ پورا کرنے کے اسباب پیدا کردیئے ؟
اگر ہم بھی ﷲ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین کرلیں اور اس کا حکم مان لیں اور اس کے فرمان کے مطابق عمل کریں تو وہ ہمارے دلوں میں صبر و سکون نازل کرےگا اور تمام پریشانیوں سے ہمیں دور رکھے گا اور دنیا میں بھی بھلائیاں عطاء فرماۓگا اور آخرت میں بھی پمارے ساتھ اچھا معاملہ کرتے ہوئے جنت میں داخل کرکے اپنا وعدہ پورا کرےگا۔
” ٹھیک ہے نا ؟ ”
ہمیں بھی چاہیئے کہ ﷲ کا حکم مانیں ، ان کے حکم کے مطابق عمل کریں ، تاکہ وہ ہم لوگوں کے دلوں میں اطمینان و سکون نازل کرے اور ہماری تمام بے چینی اور پریشانیاں ختم ہوں۔ اگر خدا نخواستہ کبھی کوئی مصیبت کا وقت آن پڑے تو ہمیں صبر کی توفیق ہو اور اس صبر پر ہمیں خوب اجرملے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ فرعون کی بیوی آسیہ کی طلب پر شاہی محل چلی آئیں تو فرعون کی باندیوں نے بچہ ان کی گود میں دیدیا ۔ بس بچہ کو چھاتی سے لگاناتھا کہ اس نے دودھ پینا شروع کردیا ۔
فرعون کے گھر والوں کو بہت غنیمت معلوم ہواکہ بچہ نے ایک عورت کا دودھ قبول کرکیا ہے۔ بڑی خوشیاں منائیں گئیں اور انعام و اکرام کئے گئے ۔ فرعون کی بیوی نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے پاس رہ کر اس بچہ کی پرورش کریں۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے عذر کیا کہ :۔
* میں یہاں نہیں رہ سکتی۔
* میرے گھر پر چھوٹا بچہ ہے۔
* میں اپنے گھر لیجاکر اس کی پرورش کرونگی۔
* میرا وعدہ ہے کہ اس کی پرورش میں بالکل کوتاہی نہیں کرونگی۔
* مجھے گھر لیجانے کی اجازت دیدی جائے۔
* میں کبھی کبھی بچہ کو آپ کے پاس دیدار کے لئے لے آؤنگی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اس کی بخوشی نہ صرف اجازت ملی بلکہ اس پر ان کا وظیفہ مقرر ہوا۔
اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام امن و اطمینان کے ساتھ پھر آغوش مادر یعنی ماں کی گود میں پہنچ گئے۔ اور فرعون کے یہاں سے جو وظیفہ ان کی ماں کا مقرر ہوا وہ مفت میں رہا ۔
ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو نہ صرف ان کا بچہ واپس کرکے ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل کو سکون بخشا بلکہ اس بچہ کے توسط سے دولت بھی بخشی جو ظاہری سکون کا بھی سبب ہے۔۔ وعدہ کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ان کو گاہ بگاہ فرعون کی بیوی کے پاس لیجاتی اور کو دکھلا آتیں۔ فرعون کی بیوی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر چین و سکون آتا اور مسرور ہوتی۔
یہ عجیب بات ہے کہ بچہ تو کسی اور کا ہے مگر آنکھوں کی ٹھنڈک کسی اور کی بناہوا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا ؟
( جاری ہے )