میں صبح سے انٹرویوز کر کے تھک چکا تھا، آخری امیدوار کا سی وی میرے سامنے تھا۔ حسب معمول میں انٹرویو سے پہلے سی وی کا بغور مطالعہ کر رہا تھااور ممکنہ سوالات ترتیب دے رہا تھا۔
وہ غالباً 27 سالہ لڑکی تھی جس نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کیا ہوا تھا لیکن کسی جاب کا حوالہ موجود نہ تھا۔
ڈیپارٹمنٹ منیجر نے کمنٹس میں اسے بہت ضرورتمند ظاہر کرتے ہوئے کسی جونیئر پوسٹ کے لئے موزوں قرار دیا ہوا تھا۔
جب وہ میرے کمرے میں آئی تو اسے دیکھتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ واقعی ضرورت مند ہے اور یوں انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہی میں نے اسے ایک پوسٹ پر رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن ایک پروفیشنل ہونے کے ناطے میں نے طے شدہ سوالات کے مطابق اسے پرکھنا ضروری خیال کیا۔
وہ اپنے حلئے اور لباس سے سطح غربت سے نچلے درجے کی نمائندہ نظر آ رہی تھی اور چہرے پہ ایک عجیب سی الجھن سجائے ہوئے تھی۔ میں نے اسے پانی پینے کا کہا اور مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو ریلیکس کرے۔
بیٹا کہہ کر مخاطب کرنامیری عادت ہے اور یہ سن کے وہ قدرے بہتر نظر آنے لگی۔مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس سے اردو میں سوال کرنے چاہئیں کیونکہ آثار نہیں لگ رہے تھے کہ وہ انگریزی سمجھ یا بول پائے گی۔
لیکن اس کی تعلیمی استعداد دیکھتے ہوئے میں نے انگریزی کو ہی میڈیم بنایا۔میرے پہلے سوال پر ہی اس نے میرے اندازے غلط ثابت کر دئے اور اتنی عمدہ اور تسسلسل سے انگریزی میں گفتگو کی کہ میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ جو جاب میں نے اس کے سوچی تھی وہ قطعاً اس کی قابلیت سے کم
امیدوار کو ایک اچھا ماحول دینا کہ جس میں وہ اپنی قابلیت کا اظہار کر سکے، انٹرویو کا ایک بنیادی اصول ہے جسے ہم عام طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قصہ مختصر ، اس نے کافی اداروں میں انٹرویو دئے تھے اور ناکامی کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو گئی تھی۔ اور کئی لوگوں کے مشورے پر اس نے اپنی موجودہ نوکری کو بھی ظاہر نہیں کیا تھا جو وہ تین سال سے کر رہی تھی۔
شائد آپ لوگ بھی حیران ہوں گے کہ وہ ایک وکیل صاحب کے چیمبر میں کام کر رہی تھی جہاں اسے صرف 5 ہزار ماہانہ اعزازیہ ملتا تھا۔ اسے پانچ سال کا تجربہ حاصل کرنا تھا جس کے بعد وہ اپنی پریکٹس بھی کر سکتی تھی اور سول جج یا اس طرح کے عہدوں کے لئے بھی کوالیفائی کر سکتی تھی۔
اس گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ وکالت اس کا شوق ہے لیکن والدین کی ضد پر اس نے ماسٹرز کیا اور پھر انہیں راضی کر لیا کہ وہ اسے وکالت پڑھنے کی اجازت دیں۔
وہ اپنے والدین کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اپنے مزدور باپ کا ہاتھ بٹانا چاہتی تھی لیکن قلیل آمدنی کیوجہ سے کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
مزید یہ کہ وکیل صاحب کے سارے کام سنبھالنے کے باوجود تنخواہ نہیں تھی اور اپنے دوسرے ساتھیوں کی پیشہ وارانہ رقابت اور حسد کا بھی شکار تھی۔ ان سارے معاملات کی وجہ سے وہ اپنے شوق کو قربان کر کے کوئی اور نوکری تلاش کر رہی تھی۔
میں عجیب صورتحال کا شکار ہو رہا تھا، ایک جانب اس کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اسے ایک لیگل آفیسر کی جاب پہ رکھا سکتا تھا لیکن دوسری جانب میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ایک بڑی منزل سے صرف دو سال کی دوری پر ہے۔
عام طور پر کسی امیدوار کو اچھا مشورہ بھی دیں تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ شاید انہوں نے جاب آفر نہیں کرنی اسلئے جان چھڑا رہے ہیں، اسلئے سب لوگ محتاط رہتے ہیں۔
لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اسے کیرئر کے حوالے سے صحیح مشورہ دوں اور اگر وہ چاہے تو اسے راہنمائی بھی فراہم کروں گا۔ میں نے اپنے تئیں یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہے اور اس کے ساتھی محض اسلئے اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ان کے استاد ہر جگہ اس لڑکی کو بھیجتے ہیں۔
وہ وکیل صاحب بھی بظاہر بے عیب شخصیت کے مالک نظر آئے، ماسوائے کم مشاہرہ کے لیکن وہ بھی اس وقت کے مروجہ طریقہ کے مطابق تھا اور باقیوں کو بھی اتنا ہی ملتا تھا۔
میں نے تفصیل سے اسے سمجھایا کہ زیادہ کام تمہیں اسلئے دیا جاتا ہے کہ تم میں اہلیت ہے اور تمہارے کولیگ محض اسلئے حسد کرتے ہیں کہ وہ تمہیں اپنے سے بہتر سمجھتے ہیں، اور اتنی جیلسی تو تمہیں ہر جگہ نظر آئے گی۔
کسی بھی کمپنی میں شاید تمہیں زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے۔ اسلئے میرا مشورہ ہے کہ تم اپنے موجودہ کیریر پر توجہ دو اور دو سال کسی طرح گزار لو، پھر لائسنس لے کر تم اپنے شوق اور خواہش کو پورا کر سکتی ہو۔
تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہنے والی اس گفتگو کے بعد وہ لڑکی بہت خود اعتماد، مسرور اور مطمئن نظر آنے لگی۔ اس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور بہت سی دعائیں دیں۔ اس کے چہرے کے اطمینان اور سکون کو دیکھ کر میری پورے دن کی تھکاوٹ دور ہو گئی۔
اس دن مجھے احساس ہوا کہ کہ کسی کے ساتھ بھلائی صرف یہ نہیں ہے کہ آپ اس کی مالی مدد کریں، بلکہ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کسی کو مفید مشورہ دینا اور راہنمائی کرنا بھی بھلائی ہے۔
ہم سب ہیومن ریسورس پروفیشنلز کو یہ فرض بھی نبھانا چاہئے۔ اس طرح ہم ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آج وہ کریمنل لائر بن چکی ہے اور اپنے کیس لے رہی ہے، آمدنی بھی معقول ہے اور والدین کو سپورٹ بھی کر رہی ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں میں نے صحیح فیصلہ کیا؟ ضرور اپنی راے دیجئے۔
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar
آپکا تجربے سے کافی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں
بظاہر زمینی حقائق کے تحت آپ فیصلہ درست نہیں تھا۔ لیکن متذکرہ خاتون کو اس کے نظریات کے تحت قائل کرنا اور رہنمائی کرنا اتنا درست ہے کہ اس میں بظاہر نادرست نظر آنے والا فیصلہ بھی درست ثابت ہوا۔ ایک اچھے معالج اور فکری کنسلٹنٹ کی یہی خوبی اسے ممتاز کرتی ہے کہ وہ نادرست کو بھی درست بنادیتا ہے۔۔