حضرت موسیٰ علیہ السلام ( قسط نمبر 4 )
تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
@SiddiquiMarwah
ہے ناں عجیب بات کہ بچہ تو کسی اور کا مگر آنکھوں کی ٹھنڈک کسی اور کی بناہوا ہے۔
آخر ایسا کیوں ؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجاۓ خدا تعالیٰ اپنے دشمن کے ھاتوں بہی اپنے بندوں کی پرورش کراتاہے جبکہ اس کے والدین خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیں اور اس کے احکامات کے مطابق چلیں۔
یا وہ بندہ خود خدا کا فرمانبردار ہو اور یہ بہی معلوم ہوجائے کہ اگر بندہ اپنے خالق و مالک کے احکام کے خلاف چلے اور ﷲ سے بغاوت کرے تو وہ اس نافرمان ی دولت اُس کے خلاف اس کے دشمن پر خرچ کرادیتاہے۔
اور وہ نافرمان اپنے دشمن کی پرورش پر اپنے خلاف اپنی دولت خرچ کرنے پر خوش ہوتاہے جس کا اسے پتہ بہی نہیں چلتا بعد میں جاکر معلوم ہوتاہے کہ ہم نے تواپنے ہاتوں اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ہے۔ اس وقت سوائے افسوس کے کچھ نہیں ہوسکتا ”
اب پچھتاوے کیا ہوت
جب چُڑیاں چُگ گئیں کھیت
اگر ہم نے بھی خدانخواستہ ﷲ تعالیٰ کے احکام سے منہ پھیرا تو ﷲ بہی ہم سے اپنا منہ پھیر لےگا۔ اور ہماری دولت ہمارے خلاف خرچ ہوگی۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام زرا قوی ہوگئے تو ایک دن فرعون کی بیوی نے اُن کی والدہ سے کہا کہ
” اس بچہ کو میرے پاس محل میں لاؤ تاکہ میں بہی دیکھوں اور تمام دربار کے لوگ ، نوکر چاکر اور تمام خدمت گار بہی اِسے دیکھیں اور میرے تمام درباری بہی اس سے محبت کریں اور اس کی عظمت ان کے دل میں ہمیشہ کے لئے بیٹھ جائے ”
اِدھر فرعون کی بیوی نے درباریوں کو حکم دیا کہ یہ بچہ آج ہمارے گھر آرہا ہے تم میں سے کوئی ایسا نہ رہے جو اس کا اکرام نہ کرے اور کوئی شخص ایسا نہ ہو جو اس کو تحفہ پیش نہ کرے۔
میں خود اس کی نگرانی کرونگی کہ تم لوگ اس معاملہ میں کیا کرتے ہو اس کا اثر یہ ہوا کہ جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ گھر سے نکلے اُسی وقت سے اُن پر تحفوں اور ھدیوں کی بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ فرعون کی بیوی کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے پاس سے خاص تحفے الگ پیش کئے
اور اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اجتماعی طور پر بڑے جوش و خروش طریقے سے بڑا زبردست استقبال کیا گیا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی محبت اور عظمت سب کے دل میں بیٹھ گئی ۔
فرعون کی بیوی ان کو دیکھ کر بے حد مسرور ہوئی اور یہ سب تحفے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دیدیئے۔
اس کے بعد فرعون کی بیوی نے کہا کہ اب میں ان کو فرعون کے پاس لے جاتی ہوں وہ بھی ان کو انعام اور تحفے دینگے ” جب وہ ان کو لیکر فرعون کے پاس پہنچی تو فرعون نے ان کو اپنی گود میں لے لیا اور پیار کرنا چاہا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ساتھ پتہ کیا معاملہ کیا ؟
معاملہ یہ کیا کہ حضرت ۔
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی داڑھی پکڑلی اور اِسے زمین کی طرف جھکاکر تھپڑ ماردیا ”
اس واقعہ کا پیش آناتھا کہ دربار میں زبردست ہلچل مچ گئی ۔ اس وقت دربار کے لوگوں نے فرعون سے کہا یہ بنی اسرائیل کا وہی بچہ ہے جو آپ کے ھاتھ پر پرورش پاکر آپ پر غالب آئے گا اور آپ کو پچھاڑے گا اور آپ کی سلطنت اس کے ھاتھ پر ختم ہوجائیگی یہی آپ کے خواب کی تعبیر ہے فرعون خبردار اور متنبہ ہوا اور اسی وقت لڑکوں کو قتل کرنے والے سپاہیوں کو بُلا لیا تاکہ اس کو ذبح کردیں۔
ایک بات یاد رکھیں کہ اُس زمانہ کے کافروں کی بہی داڑھی ہوتی تھی جیسے اس زمانہ کے بعض کافروں ،سکھوں ، وغیرہ کی ڈاڑھی ہے مگر افسوس کہ آج مسلمان اور مؤمن ہونے ہوئے بھی داڑھی نہیں رکھتے جبکہ یہ ہمارے پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی سنت ہے ، جو ڈاڑھی منڈاتاہے گو وہ پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے سینہ پر اُسترا چلاتا ہے۔
کس قدر خطرناک اور تکلیف دہ بات ہے آپ لوگ زرا سوچیں کہ اگر ہم ( ﷲ کی پناہ ) حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے سینہ پر اُسترا چلائیں تو قیامت کے دن کس طرح منہ دکھائیں گے ؟ اور حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی سفارش کی کیسے امید کی جاسکتی ہے ؟
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے کافی خطرہ پیدا ہوگیا ہے کیوں کہ اُنہوں نے فرعون جیسے ظالم کی ڈاڑھی کھینچی ہے ۔
کیوں کہ انہوں نے ایک بادشاہ کی ڈاڑھی کہینچی ہے۔
کیوں کہ انہوں نے ایک سرکش کر پکڑ کر زمین کی طرف جھکادیا ہے ۔
کیوں کہ انہوں نے قبطیوں کے خدا کو تھپڑ مارا ہے ۔
کیوں کہ انہوں نے لوگوں کو ” غرور کا سر نیچا ” ہونے کا سبق دیا ہے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کیا ایک چھوٹے بچہ کے تھپڑ مارنے سے فرعون کو تکلیف ہوئی ؟
کیا ایک چھوٹے بچے کے کہینچنے سے کہینچ گیا ؟
کیا ایک چھوٹے بچے کے جھکانے سے وہ جھک گیا ؟
کیا ایک ننھے بچے کے ھاتھ میں اتنی طاقت تھی ؟
کیا فرعون کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ نہ جھکے ؟
کیا فرعون کو اتنا اختیار بہی نہ تھا کہ وہ درباریوں کے سامنے ذلیل نہ ہو ؟
کیا اب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ذبح کردیگا ؟
اصل میں بات یہ کہ اگر چہ یہ بچہ چھوٹا تھا مگر یہ عام بچوں کی طرح نہیں تھا ۔
ان کی فطرت تو اول پیدائش سے ہی غیر معمولی ہے چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے ھاتھ میں اپنی طرف سے بہت زبردست قوت دیدی تھی جس سے ایسے سرکش سر نیچاہو اُن کے بازو میں ﷲ تعالیٰ نے ایسی طاقت دیدی تھی جس سے ایسے ظالم کو خونخوار ہی یعنی وہ چاہے یا نہ چاہے جھکنا پڑے ان کے اندر ﷲ تعالیٰ نے ایسا زور پیدا کردیا تھا کہ جس کے آگے ایسے طاقتوروں کا زور نہ چل سکے۔
اُن کے پنجہ میں ﷲ تعالٰیٰ نے وہ توانا عطا فرمائی تھی جس کے مقابلہ میں ایسے بااختیار کا بھی اختیار نہ چل سکے اور وہ ذلیل ہو ۔
کیوں ایسا نہ ہو !
جبکہ موسیٰ علیہ السلام کا ھاتھ ایک نبی کا ھاتھ تھا ، موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کی ڈاڑھی کا پکڑنا ایک نبی کا پکڑنا تھا ، موسیٰ علیہ السلام کا کھینچنا ایک نبی کا کھینچنا تھا ۔
فرعون کا اختیار کیسے چلتا کیوں کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے اختیار سے نہیں کھینچ رہے تھے بلکہ ﷲ کے اختیار اور حکم سے کھینچ رہے تھے فرعون کیسے نہ جھکتا اُسے تو ﷲ تعالیٰ جھکا رہا تھا ۔
فرعون کیسے ذلت سے بچ سکتا تھا اُسے تو ﷲ تعالٰیٰ ذلیل کررہا تھا اور ایسے مغروروں کو ﷲ ذلیک کرتا ہی ہے ، اگرچہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے سپاہیوں کو بلالیا ہے مگر اس کی کیا قدرت تھی کہ ﷲ تعالیٰ کی نگرانی میں پرورش پانے والے نبی کو قتل کردے ؟
اس کی کیا مجال تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خون بہائے ؟!
اُس کی کیا طاقت تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بال بیکا کرے ؟
یہ تو وہ شمع ہے جسے خدا روشن کررہا ہے اسے بجھانے کی کس میں طاقت ہے ؟!
اب آپ دیکھیئے کہ ﷲ تعالیٰ اس خطرناک حالت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کس طرح بچاتا ہے اور اس کی کیا صورت نکلتی ہے۔
اس کی صورت یہ بنی کہ ” فرعون کی بیوی نے جب فرعون کا موڈ دیکھا تو وہ فوراّ کہنے لگی کہ ” آپ تو یہ بچہ مجھے دے چکے ہیں پھر اب یہ کیا معاملہ ہورہا ہے ”
فرعون نے کہا کہ تم دیکھتی نہیں کہ یہ لڑکا اپنے عمل سے گویا دعویٰ کررہا ہے کہ وہ مجھ کو زمین پر پچھاڑے گا اور مجھ پر غالب آجائیگا “۔
فرعون کی بیوی نے کہا کہ آپ اس وہم میں نہ پڑیں ایسا تو بچے کرتے ہی ہیں اگر آپ کا دل نہ مانے تو ایسا کریں دو انگارے آگ کے اور دو موتی منگوالیجیئے اور دونوں کو اس کے سامنے کردیجیئے اگر یہ موتیوں کی طرف ھاتھ بڑھائے اور آگ کے انگاروں سے بچے تو آپ سمجھ لیں کہ اس نے یہ کام عقل و شعور دیدہ دانستہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور لڑکا ہوشیار ہے
اور اگر اُس نے موتیوں کی بجائے انگارے ھاتھ میں اٹھائے تو یہ یقین ہوجائے گا کہ یہ کام کسی عقل و شعور سے نہیں کیا بلکہ پچپن کی نادانی سے کیاہے ۔ کیوں کہ کوئی عقل والا انسان آگ کو ھاتھ میں نہیں اٹھاسکتا ۔
فرعون نے اس آزمائش کو مان لیا اور کہا ٹھیک ہے ایسا کرلیا جائے “_ تو فرعون کے حکم کے مطابق دو انگارے اور دو موتی الگ الگ طشت میں لائے گئے۔
اب دیکھا موسیٰ علیہ السلام کس قدر سخت آزمائش میں پڑگئے؟
کیوں کہ اگر انگارے کے بجائے موتیوں کی طرف ھاتھ بڑھاتے ہیں تو فی الفور ان کو قتل کردےگا۔
سانس لینے کی بھی ان کو مہلت نہ مل سکے گی اس لئے کہ اس کے جلاد چھری لئے بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ صرف فرعون کے اشارے کا انتظار ہے۔
اتفاق سے موسیٰ علیہ السلام موتیوں کی طرف ھاتھ بڑھائے تو کیا ہوگا ؟ فرعون تو تاک میں ہے ۔
جلاد چھریاں لیکر حکم کے انتظار میں ہیں ۔ فرعون کی بیوی کا دل ڈھڑکنے لگا کہ معلوم نہیں بچہ کس طرف جاگا ؟ معلوم نہیں بچہ کے ساتھ کیا حشر ہوگا ؟
جاری ہے ۔