شورش کاشمیری مرحوم نے کہا تھا “کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں” اور ایک عرب کہاوت بھی ہےکہ زمانے کی بہترین دوست کتاب ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں کتنے فیصد لوگ مطالعہ کرتے ہیں؟ اور پاکستان میں کتنے فیصد لوگ کتابوں سے دوستی رکھتے ہیں؟ کیا کتابیں پڑھنا ہمارے لئے مفید ہے اور یہ ہماری ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کس طرح اور کس حد تک اثرانداز ہو سکتا ہے؟
اگر میں آپ سے سوال کروں کہ آپ نے گزشتہ ایک برس میں کتنی کتابیں پڑھیں تو ایک بڑی اکثریت شائد ایک کتاب کا بھی نام بتانے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ اس کے برعکس ہم نے کتنی فلمیں دیکھی ہیں؟ کا جواب شائد بہت آسان ہو اور سب لوگ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے ساتھ نیٹ فلیکس سیریز کا بھی حوالہ دے سکتے ہوں۔ خیر مجھے فلم دیکھنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سب توجہ مطالعے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق دنیا کے تیس ممالک کے لوگ اوسطاًہفتے میں 3 گھنٹے سے زائد وقت مطالعہ میں گزارتے ہیں۔ان ممالک میں چائنہ، ہندوستان، امریکہ، برطانیہ، روس، جرمنی، جاپان، تھائی لینڈ، سوئیڈن، ناروے، اٹلی، فرانس، کینیڈا، کوریا، تائیوان، مصر، سپین، ڈنمارک، چیک ریپبلک، میکسیکو، برازیل، وینزویلا، پولینڈ اور سعودیہ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ 1998 میں پہلی eBook منظر عام پر آنے سے یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ اب پرنٹڈ کتابوں کا دور ختم ہو جائے گا اور الیکٹرانک یا ڈیجیٹل کتابیں ان کی جگہ لے لیں گی۔
لیکن امریکہ اور بہت سے دیگر ممالک میں eBooks کے صارفین 30 فیصد سے زائد نہیں ہیں اور ابھی بھی 70 فیصد لوگ چھپی ہوئی کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ان 30 ممالک میں شامل نہیں ہے جن کا ذکر اوپر کیا ہے لیکن میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق یہاں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ آج سے کم و بیش 20 سال قبل کراچی میں کھوڑی گارڈن امپورٹڈ کتابوں سے بھرا ہوتا تھا اور میں ہر مہینے وہاں کتابوں کی جستجو میں جاتا تھا اور مناسب قیمتوں میں کتابیں خرید کے لاتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہاں سے کتابوں کی دکانیں تقریباً ناپید ہو چکی ہیں، اسی طرح سوک سینٹر کے قریب یونیورسٹی روڈ پر بے شمار کتب فروش اسٹال لگاتے تھے اور ایک کثیر تعداد میں لوگ وہاں نظر آتے تھے۔ اب یہاں بھی بہت کم تعداد میں کتب فروش ہیں اور وہ بھی عوام کی عدم دلچسپی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا ہم ڈیجیٹل دور میں زیادہ آگے نکل گئے ہیں یا کچھ اور مسئلہ ہے؟
اس کا جواب تلاش کرنے کیلئے میں اپنے بچپن میں پہنچا تو میں نے دیکھا ہمارے گھر میں نو نہال اور تعلیم و تربیت نام کے دو رسالے آیا کرتے تھے جو ہمیں پڑھنے ہی پڑتے تھے کیونکہ کوئی بھی ماموں ، چچا یا والد صاحب کبھی بھی ان کے بارے میں پوچھ لیا کرتے تھے۔ میٹرک میں پہنچے تو ابن صفی کی عمران سیریز ہمارے ساتھ شامل ہو گئی، اور رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ خواتین، پاکیزہ اور جاسوسی ڈائجسٹ بھی ہوتے ہیں جن میں قسط وار کہانیاں چھپتی تھیں۔ یہ ساری کتابیں ہمیں کچھ سکھا پائیں یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں روزانہ تھوڑی دیر کیلئے کتاب پڑھنے کی عادت ہو گئی۔
اس کے مقابلے میں ہمارے بچوں نے کارٹون کیرکٹر دیکھے اور کتابیں صرف اسکول کی رہ گئیں۔ درسی کتابوں پر کوئی تنقید نہیں کہ ان میں اچھی تعلیمات موجود ہیں لیکن آجکل درسی کتب سمجھنے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ امتحان پاس کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔
گویا ہم نے اپنے بچوں کو کتابوں کی طرف رغبت سے محروم کردیا اور وہ صرف کاٹون کریکٹر ز یا ٹی وی کے مختلف کردار دیکھ کر متاثر ہوتے رہے۔
ای بکس کی طرف واپس آتے ہیں تو پتہ چلتا ھے ہے کہ ہم نے نہ صرف کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا بلکہ ہم نے ڈیجیٹل مطالعہ کو بھی نہیں اپنایا۔ جب ہم دنیا کے دوسرے ممالک کو دیکھتے ہیں جن میں ابھی بھی مطالعے کا رجحان موجود ہے تو ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہےکہ ہم ترقی یافتہ ممالک سے ان معاملات میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
مذکورہ بالا سٹڈی کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مطالعہ کرنے کا رجحان ہندوستان کے عوام میں ہے جہاں اوسطاً ہفتے میں 10 گھنٹے 40 منٹ کے قریب مطالعہ کیا جاتا ہے ہے دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ اور پھر چائنا کا نمبر آتا ہے۔
اگر ہم قوموں کی ترقی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایشیا میں انڈیا ، چائنا اور تھائی لینڈ ایسے ممالک ہیں ہیں جن کی اکانومی میں کافی ترقی ہو رہی ہے اور وہ صحیح معنوں میں مغرب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر ٹیکنالوجی کی بات کریں تو چائنا ان میں سب سے آگے جا رہا ہے اور انڈیا بھی اس کے پیچھے پیچھے ہے۔ اگرچہ انڈیا کے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن لوگوں کو تعلیم کی طرف طرف مائل کرنے سے ہندوستانی عوام نے ترقی یافتہ ممالک کی انڈسٹری کو اعلیٰ معیار کا ہیومن ریسورس مہیا کیا ہے۔
اگرچہ یہاں میں مطالعے کو اس طرح کے مقابلے میں نہیں لے رہا لیکن ایک سوچ تو جاتی ہے کہ ہم مطالعہ سے دور ہو کر کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ کیونکہ ہم ان ممالک میں شامل ہیں جہاں اوسطاً ہفتے میں 3 گھنٹے سے بھی کم وقت مطالعہ کو دیا جاتا ہے۔ یعنی محض 25 منٹ روزانہ، یہ بھی خیال رہے کہ اس مطالعہ میں اخبار، رسالے اور ناول وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا وقت ڈیجیٹل میڈیا میں کہاں استعمال ہو رہا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بہت سا وقت سوشل میڈیا پر غیر ضروری کاموں میں استعمال کر رہے ہیں۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت ہمارا پورن سائٹس کی طرف رغبت میں سر فہرست ہونا ہے۔
ارباب اختیار اور عوام الناس سے مشترکہ اپیل ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ایسی صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف مائل کیا جائے جہاں وہ اپنے وقت کا بہتر استعمال کر سکیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ تہیہ کر لیں کہ روزانہ ایک گھنٹہ اپنے مخلص دوست کے ساتھ گزاریں گے تو ایک سال میں ہم دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہو جائیں گے جہاں ہفتے میں 7 گھنٹے مطالعہ میں صرف کئے جاتے ہیں۔
اگر صرف رسالے اور ناول بھی پڑھے جائیں تو بھی وہاں سے عملی زندگی کیلئے کچھ نہ کچھ نصیحت ضرور ملے گی جو ہماری راہنمائی کر سکتی ہے۔
ہمارے لوگوں میں زہانت اور قابلیت انتہا کی ہے صرف ڈائرکشن اور فوکس کی کمی ہے۔ موجودہ لیڈرشپ سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس جانب توجہ دے لیکن تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک ہم خود کو تبدیل نہ کرنا چاہیں۔
ہمیں آگے بڑھنا ہے، ملک اور قوم کی خاطر۔۔۔بہترین اور مخلص دوست کے ساتھ پھر سے جڑنا ہے۔
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar