نواز شریف اور “جمہوریت”
1981 میں جنرل ضیاالحق نے میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنا کر اقتدار میں شامل کیا تو میاں صاحب نے ضیاء صاحب کے حق میں “مرد مومن مرد حق، ضیاالحق ضیاالحق” کے نعرے لگائے جو کہ دس سال سے بھی زیادہ عرصے تک گونجتے رہے-
پھر جنرل مشرف نے ان کو اقتدار سے ہٹا دیا تو میاں صاحب کے مطابق ملک میں ہر قسم کی گڑبڑ کی ذمہ دار آرمی ہے-
مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو میاں صاحب زرداری کے خلاف “میموگیٹ” کیس لے کر سپریم کورٹ چلے گئے اور جنرل کیانی کو اپنا گواہ بنا کر پیش کیا اور ایک بار پھر “مرد مومن مرد حق” کی گردان الاپی-
1988 میں بےنظیر بھٹو الیکشن میں حصہ لینا چاہ رہی تھیں تو میاں صاحب نے مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بےنظیر کے خلاف مہم چلا دی کہ ایک عورت مسلم ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی اور بےنظیر وزیراعظم بن بھی گئی تو لوگوں کو غیرت کا سبق دے کر ایک عورت حکمران کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ شروع کروا دیا-
لیکن آج میاں صاحب اپنا فلسفہ تبدیل کر چکے ہیں اور اپنی بیٹی مریم نواز کو سامنے لے آئے ہیں-
1998 میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے پاکستانی قوم کو “قرض اتارو، ملک سنوارو” کانعرہ دیا- جس میں پاکستانی عوام نے دل کھول کر فنڈز جمع کروائے جس سے میاں صاحب کی بنک دولت میں تو برکت پیدا ہو گئی لیکن ملک کا نہ تو قرض ہی اتر سکا اور نہ ہی ملک سنور سکا- بلکہ قرض مزید بڑھ گیا اور ملک مزید معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا-
مارچ، 2009 میں نواز شریف نے قوم کو ایک بار پھر بیوقوف بنایا اور “عدلیہ کی آزادی” کا نعرہ لگا دیا جس سے جسٹس افتخار چودھری بحال بھی ہو گئے لیکن شاید عدلیہ پھر بھی آزاد نہ ہو سکی-
افتخار چودھری کی بحالی کا میاں صاحب نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا ناک میں دم کر کے رکھا اور یوسف رضا گیلانی کو نا اہل بھی کروا دیا اور آج نوازشریف ایک بار پھر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ عدلیہ آزاد نہیں ہے-
عدلیہ نے جب یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا تو عدلیہ آزاد تھی اور اگر وہی عدلیہ میاں صاحب کو نااہل کر دے تو عدلیہ قید؟ یہ فلسفہ سمجھ سے باہر ہے ویسے-
آج میاں صاحب نے جمہوریت کو آزاد کروانے کا نعرہ لگا دیا ہے- شاید جمہوریت میاں صاحب کا ہی نام ہو؟؟
کیونکہ جب میاں صاحب 1985 سے 1993 تک وزیراعلی اور پھر وزیراعظم رہے تو ان کے مطابق جمہوریت آزاد تھی- پھر میاں صاحب نے 1997 سے 1999 تک جمہوریت کو پھر سے ازاد کروا دیا- 2008 میں پنجاب کی حد تک تو جمہوریت آزاد تھی لیکن عدلیہ قید ہو گئی تھی-
پھر 2013 سے 2018 تک میاں صاحب نے جمہوریت کو پھر آزاد کروا دیا لیکن اب ایک بار پھر جمہوریت قید ہو گئی ہے- کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب جمہوریت کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتی کیونکہ میاں صاحب تاحیات نااہل ہیں-
آکسفورڈ ڈکشنری والوں کو بھی چاہئیے کہ وہ اپنی ڈکشنری میں ضروری ترمیم کریں تا کہ جب بھی کوئی جمہوریت کے معانی سرچ کرنا چاہے تو اس کے سامنے میاں صاحب کے لندن فلیٹس کی تصویر آ جائے تا کہ معانی اچھی طرح سمجھ میں آ سکیں-
پاکستان اور اہل پاکستان کو اچھی طرح سمجھ جانا چاہیے کہ یہ خاندان صرف اپنے فائدے کے لیے سیاست میں آتا ہے اور یہ اپنے فائدے کے لئے لیے پاکستان کے خلاف جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے