انسان کا رویہ اس کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے معاشرے کا وجود انسانوں کے رویے پر منحصر ہوتا ہے انسان کی مثبت سوچ بہترین معاشرے کی راہ ہموار کرتی ہے جبکہ منفی سوچ معاشرے کو اخلاقی زوال کی بستیوں میں لے جاتی ہے۔
یہاں میں نے انسان کی سوچ کا ذکر کیا ہے آدمی کا نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں اخلاقی زوال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آدمی تو بے شمار ہیں مگر انسانوں کی شدید کمی ہے دنیا کا آج ہر کام ناممکن سے ممکن ہو گیا ہے مگر ایک کام جو ناممکن ہے وہ آدمی کو انسان بنا ہے۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا۔
سوچ کی بستی ہمارے ہاں ہر طبقے میں یکساں پائی جاتی ہے سیاستدان دو چار ترقیاتی کام صرف اگلے الیکشن کے لئے کرتے ہیں اگلی نسلوں کا خدا حافظ ہے۔
کوئی افسر یا عہدیدار اپنا فرض رشوت لے کر ادا کرتا ہے قانون کی خلاف ورزی یہ سوچ کر کی جاتی ہے کہ اگر شکنجے میں آ ہی گئے تو سفارش موجود ہے یہاں جرم پر جرم بے دھڑک ہو رہا ہے۔
اگر کوئی انسان ہمیں بڑی سوچ دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ہماری نیچ سوچ کا نشانہ بن جاتا ہے مثبت سوچ زندگی کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتی ہے۔
اسلام انسان کو مثبت سوچ عطا کرتا ہے ایمان کا حامل انسان دشوار وقت کو صبر کے ساتھ گزارتا ہے کہ اس کا خدا بہترین پھل دے گا اور بہترین وقت وہ شکر کے ساتھ گزارتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ خدا شکر کرنے والوں کو مزید ادا کرتا ہے۔
خدا پر کامل یقین کے ساتھ اگر ایک قوم مشکل وقت میں صبر اور اچھے وقت میں شکر کرے تو عظیم قوم بن سکتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک قوم تیار کی جو اسلامی سوچ کی مضبوط بنیاد پر انحصار کرتی ہے۔
آپ کی تیار کردہ قوم نے دنیا میں فتوحات حاصل کیں اور اسلام کے علم کو بلند کیا۔کیا اس عظیم قوم کی زندگی میں کوئی مشکل وقت نہیں آیا؟ کیا شعب ابی طالب میں اس قوم نے بھوک برداشت نہیں کی؟
کیا اس قوم نے مشکل وقت میں بے صبری کا مظاہرہ کیا؟ بالکل نہیں ۔تو یہ قوم ہمارے لئے ہی بہترین نمونہ ہے ہماری قومی زندگی میں پہلے بھی مشکلات آئیں ہیں اور ابھی بھی موجود ہیں ہم نے پہلے بھی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ابھی بھی کریں گے ان شاءاللہ۔
تو کیا ہمیں خدا پر کامل یقین کے ساتھ صبر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے؟
بالکل کرنا چاہیے۔ اس لیے ہمیں اپنے اندر مثبت سوچ اور انسانیت جیسے جذبات کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ایک عظیم قوم بننے کے لیے عظیم سوچ کی ضرورت ہے خدا کی عنایت ہے کہ اس نے ہمیں اچھا لیڈر عطا کیا ہے ۔
تو ہمیں بھی صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا سے بہترین کی امید رکھنی چاہیے۔پاکستان انشاءاللہ ایک عظیم ترین ملک بنے گا۔
تحریر : عبدالرحمن سعید