تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
والد کو لڑکی کی اس دانشمندانہ بات سے بڑی خوشی ہوئی اور خود ان کو بھی ان کے بارے میں قوت و امانت کا یقین ہوگیا، اُس وقت انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ : —
اگر آپ آٹھ سال تک میرے پاس رہیں اور میری بکریاں چرائیں تو میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک آپ سے شادی کرنے پر تیار ہوں اور اگر آپ اس مدت کو دو سال بڑھا کر دس سال کردیں تو اور بھی بہتر ہے _ یہی اس لڑکی کا مہر ہوگا : —
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شرط کو منظور کرلیا اور فرمایا : —
یہ میری خوشی پر چھوڑیئے کہ میں ان دونوں مدتوں میں سے جس کو چاہوں پورا کروں آپ کی جانب سے اس بارے میں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا ”
طرفین یعنی دونوں طرف کی اس رضا مندی کے بعد بزرگ میزبان نے اس بیان کردہ مدت کو مہر قرار دیکر اس معصوم مہمان یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اپنی بیٹی کی شادی کردی _
جن کا نام ” صفورا ” بتایا جاتا ہے ( بعض کا خیال ہے کہ ” مدت ختم ہونے کے بعد ” نکاح ” ہوا ) بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں بکریاں چرانے کے لئے مقیم رہے اور انہوں نے اپنی رضا مندی سے مکمل دس سال کی مدت پوری کی_
جب مدت ختم ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کے ساتھ مدین سے رخصت ہوئے اور مصر کو روانہ ہوگئے اس وقت اُن کے سسر حضرت شعیب علیہ السلام نے سال بھر کے تمام بکریوں کے بچے ان کو دیدیئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا خادم بھی تھا _
اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس سال کے ہوچکے تھے، تو عمر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بالکل سنجیدہ اور تربیت کے اعتبار سے ایک کامل تربیت یافتہ اور علم و عمل اور ہوشیاری کی رُو سے ایک بہت بڑے دانا ، عقلمند ، ہوشیار ، باصلاحیت ، پُروقار اور باکمال شخص بن گئے تھے _
ایسی حالت میں وہ اپنی اہلیہ اور بکریوں کا ریوڑ لے کر روانہ ہوئے تھے مگر چونکہ ملک شام کے بادشاہ کے ظلم کا خوف تھا اس لئے انہوں نے شہر کے مشہور و معروف راستہ کے بجائے دوسرا جنگلوں اور صحراؤں کا راستہ اختیار کیا _
راستہ میں سخت سردی تھی _
اندھیری رات کا سفر تھا_
کوئی راستہ بتلا نے والا نظر نہ آتاتھا _
تاپنے کے لئے آگ کی ضرورت پڑرہی تھی _
ان کی اہلیہ ایک عورت ذات ہونے کی وجہ سے سخت پریشانیوں کی شکار تھیں_
اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چقماق استعمال کیا تاکہ آگ جلائے مگر سردی کی وجہ سے چقماق سے آگ نہ نکلی_
تو سخت حیران و پریشان ، بکریاں بھی اِدھر اُدھر منتشر ہوگئیں ، اہلیہ بھی تکلیف کے باعث سخت پریشان اس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں اچانک کچھ دور آگے پہاڑ پر آگ نظر آئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ : —
” تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے ، شاید وہاں پہنچنے پر کوئی پتہ بتانے والا مل جائے تو کچھ سہارا ہوجائے گا اس سے راستہ معلوم کرلونگا ”
حضرت موسیٰ علیہ اس پہاڑ کے قریب پہنچے تو وہ حیرت میں پڑگئے : —
کیا دیکھتے ہیں کہ یہ آگے ایک درخت میں زور و شور سے لگی ہوئی ہے کہ آگ درخت کو جلاتی ہے اور نہ گُل ہی ہو جاتی ہے بلکہ مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ آگ جس قدر زور سے بھڑکتی ہے درخت اُسی قدر زیادہ سر سبز ہوکر لہلہاتا ہے اور جوں جوں درخت کی سرسبزی و شادابی بڑھتی ہے آگ اور تیزی سے شعلہ مارتی ہے _
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ کے قریب جانیکا قصد کیا کہ درخت کی کوئی شاخ جل کر گِر پڑے تو اُٹھا لائیں ، لیکن جتنا وہ آگ سے نزدیک ہونا چاہتے آگ دور ہٹتی چلی جاتی اور جب گھبرا کر پیچھے کو ہٹنا چاہتے تو آگ ان کا تعاقب یعنی پیچھا کرتی ، گویا عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوگئے نہ آگ لے سکتے تھے اور نہ ہی آگ سے بچ کر واپسی کی نیت سے پلٹنے لگے تو اچانک آگ قریب آگئی اور اس آگ میں سے ایک آواز آئی _
اُس آگ میں سے کیا آواز آئی ؟
کیا آگ بھی گفتگو کرسکتی ہے؟ وہ کیسے؟
اُس نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا کہا؟
اُس گفت و شنید کے بعد موسیٰ علیہ السلام کہاں گئے ؟
کیا فرعون سے مقابلہ کرنے کی نوبت آئی ؟
اگر نوبت آئی تو وہ کس طرح ؟
اُن کے ساتھ اور کون تھا؟
ان سوالات کے جوابات آپ آئیندہ قسط میں ملاخطہ فرمائیں۔