تحریر ؛ حمیرا ( مروہ صدیقی )
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی شخصیت ایک بے اخیتاری خطا اور غلطی پر ﷲ کے حضور نبی بننے سے پہلے ہی شرمندہ اور نادم ہے اور ﷲ سے معافی مانگ ریے ہیں۔ مگر آج ہم بڑے بڑے گناہ اور نافرمانی کاکام قصدا کرلیتے ہیں اور ہمیں کچھ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے بھی کوئی گناہ کیا ہے۔ اور اگر کبھی اس گناہ کا احساس ہوبھی جائے تو یوں کہہ کر ﷲ سے معافی نہیں مانگتے کہ لوگ اس سے بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں۔ یہ کتنی بُری بات ہے ! اگر ہم بھی اپنے گناہوں پر ﷲ کے حضور نادم اور شرمندہ ہوں اور ﷲ سے اس کی معافی مانگیں اور آئندہ اس کے نہ کرنے کا وعدہ اور دل میں عزم یعنی پکا ارادہ کرلیں تو ﷲ تعالیٰ ہم سے کس قدر خوش ہونگے ؟ اور ہم پر کتنی اپنی رحمتیں نازل فرمائیں گے؟
ادھر شہر میں مصری کے قتل کی خبر مشہور ہوگئی اور پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، کیوں کہ یہ ایک اچانک انوکھا واقعہ پیش آیا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی اس کا سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس لئے کہ مصری تو حاکم اور بنی اسرائیل محکوم اور غلام تھے ، حاکم سے مقابلہ کون کرسکتا تھا ؟!
اُدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس واقعہ کے بعد خوف و ہراس کے عالم میں خبریں دریافت کرتے رہے کہ اس قبطی کے قتل پر آل فرعون کا کیا ردّ عمل ہوا اور فرعون کے دربار میں یہ معاملہ پہنچا یا نہیں ؟ اگر پہنچا ہے تو کس عنوان سے ؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ معاملہ فرعون تک پہنچ گیا ہے ، مگر اس عنوان سے پہنچا ہے کہ : –
کسی اسرائیلی نے فرعون کے خاندان کے ایک آدمی کو قتل کردیا ہے اس لئے اسرائیلیوں سے اس کا انتقام لیا جائے ، اس معاملہ میں اُن کے ساتھ ڈھیل کا معاملہ نہ کیا جائے۔
فرعون نے کہا :-
اس طرح ساری قوم سے تو بدلہ نہیں لیا جاسکتا ، تم قاتل کا پتہ لگاؤ، اس کے قاتل کو متعین کرکے مع شہادت اور ثبوت کے پیش کرو کیوں کہ بادشاہ اگر چہ تمہارا ہی ہے مگر اُس کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ بغیر شہادت و ثبوت کے یوں ہی کسی کو پکڑ کر اس سے بدلہ لے لے ، تم اس کے قاتل کو تلاش کرو اور ثبوت مہیا کرو ۔ میں ضرور تمہارا انتقام لونگا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچاؤنگا ۔
آل فرعون کے لوگ یہ سُن کر گکی کوچوں اور بازاروں میں پھیل گئے اور ہر طرف قاتل کی تلاش شروع ہوگئی کہ کہیں اس کے قتل کرنیوالے کا سراغ مل جائے مگر اُن کو کوئی سراغ اس دن نہ ملا۔
کیوں کہ سراغ کیسے ملتا اس مصری کے قتل کے وقت وہاں سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فریادی بنی اسرائیل کے اور کوئی تھا ہی نہیں ، جو اُن کو آکر بتاتا۔
فرعون ایک ظالم و جابر بادشاہ ہونے کے باوجود معاملہ کے فیصلے کے لئے گواہی اور ثبوت طلب کیا اور واقعہ کی صحیح تحقیق کرنے کا حکم دیا۔ افسوس صد افسوس کہ آج ہم مؤمن اور ﷲ کہ بندگی کرنے والے ہونے کے باوجود معاملہ کی صحیح تحقیق گواہ اور ثبوت تلاش نہیں کرتے۔ اپنوں کو ترجیح دیکر اُن کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم و ناانصافی ہے۔
آگے یہ ہوا کہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام دوسرے روز بھی شہر کے کنارے پر سیر فرمارہے تھے کہ اچانک دیکھا کہ وہی اسرائیلی شخص کسی دوسرے قبطی سے جھگڑ رہا ہے اور قبطی غالب ہے ، اس اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر کل کی طرح آج بھی فریاد کی اور مدد کے لئے پکارا ۔ مگر چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کل کے واقعہ پر ہی نادم ورہے تھے اس لئے اس واقعہ کو دیکھ کر انہوں نے دوہری ناگواری محسوس کی ۔ ایک طرف قبطی کا ظلم تھا اور دوسری طرف اسرائیلی کا شور و فریاد اور گزشتہ واقعہ کی یاد تھی ، اسی جھنجھلاہٹ میں اُنہوں نے قبطی کو باز رکھنے کے لئے ھاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی اسرائیلی کو بھی بطور تنبیہ جھڑکتے ہوئے فرمایا :
تو بھی بے شک گمراہ شخص ہے ، خواہ مخواہ جھگڑا مول لیتا ہے ، اور فریاد کرتا ہے ، کل بھی تو نے جھگڑا کیا تھا اور آج بھی پھر لڑ رہا ہے۔
چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غصہ میں تھے اس لئے اسرائیلی نے ان کو ھاتھ بڑھاتے اور پھر اپنے متعلق سخت اور تلخ الفاظ کہتے سنا تو یہ سمجھا کہ یہ مجھ جو مارنے کے لئے ھاتھ بڑھارہے ہیں اور مجھ کو گرفت میں لینا چاہتے ہیں اس لئے شرارت آمیز انداز سے کہا :
اے موسیٰ ! جس طرح تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تھا کیا اس طرح مجھ کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ تمہیں صرف قتل کرنا ہی آتا ہے آرام سے سمجھانا نہیں آتا ؟
قبطی جو کھڑا تھا اس نے جب یہ بات سُنی تو اُسی وقت جاکر فرعونیوں سے ساری داستان کہہ سنائی ، انہوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ مصری کا قاتل ” موسیٰ ” ہے اور اس کے ثبوت میں پورا ماجرہ سُنایا
فرعون نے یہ سُنا تو فورا آپس میں مشورہ کرکے جلاد اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) کو گرفتار کرکے حاضر کرو ۔ مصریوں کی اس میٹنگ میں ایک معزز مصری وہ بھی تھا جو دل و جان سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محبت رکھتا تھا اور اسرائیلی مذھب کو سچ جانتا تھا ، یہ فرعون ہی کے خاندان کا فرد تھا اور دربار کا حاضر باش تھا ، اس نے فرعون کا حکم سُنا تو فرعونی جلاد اور سپاہی ( جو شاہراہ سے آرام و اطمینان سے جارہے تھے ان کا خیال تھا کہ موسیٰ تو ہم سے بھاگ ہی نہیں سکتے ، ہم تو ہر صورت میں ان کو پکڑلائیں گے ) سے پہلے ہی گلی کوچوں سے نکل کر دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا قصہ بیان کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ ؛-
اس وقت مصلحت یہی ہے کہ خود جو مصریوں سے نجات دلائے اور کسی ایسے مقام کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں ان کی دسترس نہ ہو
جاری ہے