تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
یہ دیکھ کر اُن کا خون کھولنے لگتا اور موقع بہ موقع عبرانیوں یعنی اسرائیلیوں کی حمایت و نصرت میں پیش پیش ہوجاتے اور ہر ممکن ان کی مدد فرماتے ۔
مصریوں نے جب یہ دیکھا تو ان کو بنی اسرائیل پر ظلم و ستم اور تذلیل و توھین کرنیکی ہمت نہ رہی ، جو اس سے پہلے ان لوگوں کی طرف سے ہمیشہ بنی اسرائیل پر ہوتا رہتا تھا ۔ چنانچہ ان مصریوں کے مظالم عبرانیوں یعنی اسرائیلیوں پر کم ہونے لگے ۔
اس میں شک نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا ذلت اور غلامی پر غم و غصہ اور ان کی حمایت و نصرت کا گہرا اور بے پناہ جزبہ ایک فطری اور قدرتی جزبہ ہے۔
آپ لوگ بتایئے کہ ﷲ کی بے قصور مخلوق پر ظلم اور ناانصافی اور ﷲ کے نافرمانوں کے ساتھ اس طرح کی اقراباء پروری ، ﷲ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ، اور ﷲ کے دشمنوں کے ساتھ انعامات و مراعات کا معاملہ ، ﷲ کے پرستاروں کی تذلیل و توہین ، اور ﷲ کے باغیوں کی توقیر و تعظیم ، اولاد انبیاء کی کی تحقیر و حق تلفی اولاد فرعون کی تکریم و تعمیر کیا کوئی شریف سنجیدہ آدمی برداشت کرسکتاہے ؟
نہیں کبھی نہیں ! جب ایک عام شریف آدمی کے لئے ناقابل برداشت ہے تو ایک پیغمبر کے لئے کس طرح قابل برداشت ہوسکتی ہے۔
خدانخواستہ اگر ہم نے بہی ﷲ کو ماننے والوں کے ساتھ کوئی براسلوک یا بدتمیزی کا معاملہ کیا اور ﷲ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مدد اور انکا ساتھ دیا اسی طرح دیگر معاملات اور لین دین میں کسی حقدار اور مستحق کی حق تلفی کی اور اپنے لوگوں کے ساتھ اقراباء پروری کا معاملہ کیا تو کیا ﷲ تعالیٰ اس بات کو برداشت کرلے گا ؟
نہیں ہرگز نہیں ، ﷲ تو ظلم اور ناانصافی کر ختم کرنے اور عدل و انصاف اور اچھا سلوک کرنیکا حکم دیتا ہے تاکہ معاشرے کی برائیاں ختم ہوسکیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی فضاء قائم ہو اور سب آپس میں بھائی بندی کے ساتھ رہیں۔
ﷲ تعالیٰ کی عنایت اور نوازشات کا ھاتھ اور آگے بڑھا اور اُس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جسمانی طاقت و قوت کے ساتھ علم اور حکمت کے زریور اور خوبیوں سے بھی آراستہ فرمایا اور اپنی طرف سے ﷲ تعالیٰ نے ان کے سینہ میں علم اور حکمت کی باتیں کوٹ کوٹ کر بھر دیں
جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوت فیصلہ اور باریک بینی و عقلمندی بھی اعلیٰ درجہ تک پہنچ گئی اور اس طرح اُن کو جسمانی اور روحانی تربیت کا کمال حاصل ہوگیا جس کے بعد اُن کے لئے ظالم اور مظلوم کو پہنچاننے اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے میں کوئی چیز حائل اور رکاؤٹ نہ رہی۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر شہر کا گشت کرتے اور ظالموں کے ظلم و بربریت اور مظلوموں کی عاجزی اور بے چارگی کا مشاہدہ کرتے رہتے اور ان کے دل میں ظالموں سے نفرت اور مظلوموں کے لئے محبت و ہمدردی پیدا ہوتی اور ان کی بے چارگی کو دیکھ کر اُن کا جی بھر آتا اور گاہے گاہے ان مظلوم بنی اسرائیل کی مدد کرتے۔
ایک مرتبہ ہوا یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شہری آبادی سے ایک کنارے جارہے تھے لوگ اس وقت بے خبر پڑے سورہے تھے ، تو دیکھا کہ ایک قبطی ایک اسرائیلی کو بیگار کے لئے گھسیٹ رہا ہے۔
اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو لگا فریاد کرنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے مصری فرعونی کی اس جابرانہ حرکت و جسارت پر ان کو غصہ آیا اور اس کو باز رکھنے کی کوشش کی ، مگر مصری نہ مانا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصہ میں آکر اس کے ایک مکامارا ،
مصری اس مار کو برداشت نہ کرسکا اوراُسی وقت مرگیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ قبطی اُن کے مُکّے سے مرگیا ہے تو بہت افسوس کیا کیوں کہ ان کا ارادہ ہرگز قتل کا نہ تھا
صرف مظلوم کی مدد اور ظالم کو ظلم سے روکنا تھا مگر اتفاقیہ یہ ہوا کہ ظالم ہمیشہ کے لئے ظلم سے دور ہوگیا اس معاملہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل ندامت و شرمندگی پیدا ہوئی
اور دل ہی دل میں کہنے لگے بے شک یہ شیطان کاکام ہے وہی انسان کو ایسی غلط راہ پر لگاتا ہے ۔ اور ﷲ تعالیٰ کے دربار میں عرض کرنے لگے :_
” اے باری تعالیٰ ! یہ جو کچھ ہوا نادانستگی میں ( یعنی غیر اختیاری طور پر ) ہوا تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں ، مجھے معاف کردیجیئے ”
تو ﷲ تعالیٰ نے بھی ان کی غلطی کو معاف کردیا اور ان کو گناہ سے پاک کرلیا۔
جاری ہے