جب کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالی اس کے گھر فرشتے بھیجتے ہیں جو آ کر کہتے ہیں
“اے گھر والو تم پر سلامتی ہو اور لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی”
کسی بھی معاشرے کے افراد کا تقریبا نصف حصہ عورت پر مشتمل ہوتا ہے مرد انسانیت کے ایک حصے کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرے حصے کی ترجمانی عورت کرتی ہے اس لحاظ سے نفس انسانیت ہے عورت کو نظر انداز کرکے انسانی کے لئے جو بھی پروگرام بنے گا اور ادھورا ہوگا ہم ایسے معاشرے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو تنہا مرد پر مشتمل ہو جس میں عورت کی ضرورت نہ ہو- دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں نہ عورت مرد سے مستنفی ہو سکتی ہے اور نہ مرد عورت سے بے نیاز ہو سکتا ہے ایک طرف اجتماعی زندگی ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ وہ قدم سے قدم اور شانہ بشانہ مل کرکام کریں کرے تو دوسری طرف معاشرتی تقاضے مجھے ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دامن میں سکون تلاش کریں معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے اسلام نے دنیا کو بتایا کہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے عورت کی تخلیق کی بھی ایک غاہیت ہے معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کا حصہ دار ہے ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت میں پیدا کیا اور پھر تمہارے قبیلے بنادیے لیے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو کو گویا مرد اور عورت کو بنیادی ستون قرار دے کر ان کی برابری کا اعلان بھی کیا ایک متوازن اور صلح معاشرے کے قیام کے دین اسلام نے عورت اور مرد دونوں کے لیے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے ہے اور اپنی تعلیمات کا مخاطب بھی دونوں کو ہی قرار دیا ہے جہاں ایک گھر کی تعمیر مرد کی مرہون منت ہے وہاں اس کی شیراز و بندی کا باعث عورت کی ذات ہوتی ہے عورت چاہے جس زمانے کی ہو ہو ما شے کی تعمیر میں ترقی میں اور کسی بھی نظریے کے پرچار میں اس کا کردار اہم ترین رہا ہے ہے کہ یہ حضرت خدیجہ کی شکل میں بہترین معاون اور دست راست کے کردار میں اور کہیں حضرت عائشہ کی صورت میں تعلیم و تربیت کا میدان سنبھالے ہوئے ملیں اور کہیں حضرت فاطمہ کی شکل میں معاشرے اور خاندان کے لیے اپنا آپ قربان کرتی دکھائی دیتی ہیں تو کہیں پاک سرزمین پاکستان کی آزادی میں بی اماں( محمد علی برادران کی والدہ) کا کردار ادا کرتی ہیں- جب بات آج کی عورت کی ہو تو عورت کا ایک طبقہ تحریک نسواں اور LIB کی بات کرتا ہے تو دوسرا طبقہ انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہا ہے جہاں اسے ایک انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جارہا ہر دو صورتوں میں عورت کا کردار تعمیر پاکستان ہو یا استحکام پاکستان انہیں ہر جگہ برابری کی نظر سے دیکھا جائے چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو اور یہی ہمارا اسلام ہمیں سکھاتا ہے
حیدر زیدی۔