تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوگئے تھے کہ جب وہ آگ کی طرف بڑھتے تو آگ پیچھے کو ہٹتی چلی جاتی اور جب وہ پیچھے کو ہٹتے تو آگ اُن کی طرف بڑھتی ۔
آخرکار انہوں نے وہاں سے آگ لئے بغیر ہی واپسی کا پکا ارادہ کرلیا تھا ، اور اس واپسی کے ارادہ سے جوں ہی پلٹنے لگے تو اچانک آگ میں سے ایک آواز آئی تھی ۔
کیا آواز آئی ؟؟
کیا آگبھی بھی گفتگو کرتی ہے ؟ ؟
کیا اس آواز سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت خوفزدہ نہیں ہوگئے تھے؟؟
در اصل یہ آگ نہیں تھی بلکہ ﷲ تعالیٰ کے نور کی ” تجلی ” یعنی روشنی تھی اسی لئے سبز درخت کی شاخ کو جلانے کے بجائے اُس کے حسن میں اور اضافہ کردیا تھا ۔
چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ابھی گفتگو ہونے والی تھی اس لئے کچھ دیر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کبھی آگے بڑھ کر اور کبھی ہیچھے ہٹ کر مصروف رکھا تاکہ وہ کچھ مانوس ہوجائیں اور ان کے تصور میں یہ بات آجائے کہ یہ عام آگ نہیں ہے ورنہ درخت بھی جل جاتا اور آگے بڑھنے اور ہیچھے ہٹنے کا معاملہ بھی نہ ہوتا ۔
اور اس لئے بھی تاکہ وہ اس میں سے اچانک آواز آنے پت خوف زدہ نہ ہوجائیں اور سہم جائیں_
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جوں ہی پلٹنے لگے تو اس نور میں سے آواز آئی کیوں کہ ﷲ تعالیٰ اُن سے کلام کرنا چاہتے تھے تاکہ اُن کو نبوت عطا فرمائیں اس لئے ندا دی اور پکارا :” اے موسیٰ ! ”
جب آواز سنی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ادھر اُدھر دیکھنے لگے اور فرمانے لگے :”لَبّیک ، لَبّیک ، لَبّیک ، لَبّیک “۔
انہوں نے کئی مرتبہ ” لَبّیک ” کہنے کے بعد عرض کیا کہ :میں آپ کی آواز سُنتا ہوں اور آہٹ پاتا ہوں مگر یہ نہیں دیکھتا کہ آپ کون ہیں اور کہاں ہیں؟ “پھر آواز آئی کہ : میں ہوں تمہارا ” رب ” جہانوں کا مالک و پروردگار !میں تمہارے اوپر ہوں ، تمہارے ساتھ ہوں ، تمہارے سامنے ہوں ، تمہارے پیچھے ہوں اور تمہاری جان سے زیادہ تم سے نزدیک ہوں _
اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو براہ راست ﷲ کا کلام سننے کا شرف حاصل ہوا ۔
ایک عجیب بات !ایک عجیب بات یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے تو ” ندا ” نور کے پردہ سے دی ہے مگر ندا اور یہ آواز ہر جانب سے سنائی دے رہی تھی یعنی سامنے سے پیچھے سے بھی اس طرح دائیں سے اور بائیں سے بھی یہ آواز سنائی دے رہی تھی اور اُوپر سے بھی نیچے سے بھی یہ آواز آرہی تھی اس کی کوئی سمت متعین نہیں تھی _
اس سے بھی عجیب یہ ہے کہ آواز حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ صرف اپنے کانوں ے سُنتے تھے بلکہ وہ اپنے ہر عضو سے بلکہ جسم کے ایک ایک بال سے سُنتے تھے اس لئے وہ بے تاب ہوگئے تھے اور فرمارہے تھے کہ ” میں آپ کی آواز سنتا ہوں آپ کون ہیں اور کہاں ہیں ؟
جب انہوں نے ﷲ تعالیٰ کا جواب سنا کہ ” میں تمہارا رب اور پروردگار ہوں اور تمہاری ہر جانب یعنی سامنے ، پیچھے، اوپر ، نیچے، اور تمہارے ساتھ ہوں ” تو وہ مطمئن ہوگئے _
ﷲ تعالیٰ جس کو نوازنا چاہتا ہے اسے کس طرح نوازتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ضرورت کے لئے آگ لینے آئے تھے تو ﷲ تعالیٰ کے بندوں کا رہبر بنادیا اور پیغمبری دیدی اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ :ﷲ کے فضل کا موسیٰ علیہ السلام سے پوچھیئے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے ۔
قدرت کا کرشمہ :
یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ شخص جو آگے چل کر نبی اور پیغمبر بنے گا اور انسانوں کا رہبر بنے گا اُسے ﷲ تعالیٰ نے پہلے جانورں کا رہبر بناکر بکریاں چَرانے میں لگادیا _
آخر ایسا کیوں ہوا اور ہر نبی کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں ہوتا ہے ؟دراصل بات یہ ہے کہ جو شخص جانورں کی صحیح نگرانی کرلے گا اس کو انسانوں کی نگرانی اور رہنمائی کرنے میں کوئی ہریشانی نہیں ہوگی اور پھر یہ کہ بکری ایسا جانور ہے جو گلّے سے آگے پیچھے بھاگنے کا عادی ہوتا ہے جس پر چَرانے والے کو بار بار غصہ آتا ہے اس غصہ کے نتیجہ میں اگر وہ اس بھاگنے والی بکری کی طرف التفات نہ کرے تو بکری ھاتھ سے گئی وہ کسی بھیڑیئے کا لقمہ بنے گی
اور اگر اس کو اپنی مرضی کے تابع چلانے کے لئے مارپیٹ کرے تو کمزور اتنی ہے کہ ذرا چوٹ مارو تو ٹانگ ٹوٹ جائے، اس لئے چَرواہے کو بڑے صبر و حلم سے کام لینا پڑتا ہے _
بالکل اسی طرح نبیوں کا حال عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جس میں انبیاء کرام نہ اُن سے صرف نظر یعنی توجہی کرسکتے ہیں کیوں کہ اُس وقت یہ لوگ شیطان کے تابع اور اُس کے پجاری جائیں گے ،
اور نہ ہی زیادہ تشدد کرکے اُن کو راستہ پر لاسکتے ہیں ، صبر و تحمل ہی کو شیوہ یعنی عادت بنانا پڑتا ہے یہی اس کی حکمت ہے _یہاں یہ بات سمجھ لیں کہ ہر بکریاں چَرانے والا نبی نہیں بنتا بلکہ نبی کو پہلے ﷲ تعالیٰ بکریاں چَرانے پر لگادیتا ہے تاکہ بھاگنے والی بکریوں کو چَرانے کے بعد ٹیڑھی طبعیت والے انسانوں کی نگرانی کرنا آسان ہوجائے _
آگے آئیندہ قسط میں ان شاءﷲ