تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
ٹویٹر ہینڈل : @SiddiquiMarwah
ایک دفعہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر مصیبت و پریشانی منڈلارہی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو واقعہ کہ اطلاع تو مل گئی مگر جائیں کہاں؟
مصر ہی میں پل کر بڑے ہوئے ، یہیں ہوش سنبھالا ، یہیں کے لوگوں سے تعارف ہے، یہاں کی گلی کوچوں سے محبت ہے، یہاں کے باشندوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہے، یہاں کی سرزمین ہی سے آشناہیں، خود انکی والدہ یہیں رہتی ہیں، اُن کے بڑے بھائی جو عمر میں ان سے بڑے تھے وہ بھی مصر ہی میں رہائش پزیر ہیں، کبھی مصر سے باہر نکلنے کا موقع ہی نہیں آیا، کبھی کہیں سفر کی نوبت ہی نہیں آئی ، کبھی تنہائی کی زندگی نہیں گزاری، کبھی سفر کی تکلیف برداشت نہیں کی، کبھی اس کا تصور تک نہ کیا ، آج اچانک مصر چھوڑنا پڑرہاہے، آج اچانک اپنے پیارے وطن سے جدا ہونا ہڑرہا ہے، آج اچانک سفر کی تکلیف اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہانا پڑا ، آج اچانک یاردوست اور ہمدردوں سے جدائی کا موقع آگیا، آج اچانک والدہ اور بھائی سے جدائی کا وقت آگیا۔
ان تمام تصورات سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک قیامت بِیت رہی تھی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا اُچھالا رہا تھا اوت کلیجہ منہ کو آرہا تھا ، مگر چونکہ وہ بچپن سے ﷲ تعالیٰ کے انعامات اور نوازشات اپنی آنکھوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے اور قدم قدم پر ﷲ کی مدد کا مشاھدہ کرچکے تھے اس لئے کچھ ہمت سے کام لیا اور ﷲ پر بھروسہ کرکے انہوں نے ” مدین ” کا رُخ کیا۔
” مدین کی آبادی ” مصر سے تقریبا آٹھ منزل پر یعنی آٹھ دس دن کے فاصلے پر واقع تھی۔ اس جگہ کا انتخاب اس لئے کیا کہ ( مدین میں بسنے والا ) یہ قبیلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نزدیک کی قراہت و رشتہ داری رکھتا تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ” حضرت اسحٰق علیہ السلام ” کی نسل سے ہے ان ہی کے نام پر یہ قبیلہ مشہور اور یہ شہر آباد تھا۔
اب آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ ہم نے تو سنا تھا کہ حضرت اسحٰق علیہ السلام کا بھائی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں مگر اب ان کی جگہ ” مدین ” کہاجارہا ہے تو کیا ان کا کوئی بھائی اس نام کا بھی تھا۔
جی ھاں ! ون کا ایک بھائی اس نام کا بھی تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین بیویاں تھیں ایک کا نام ” سارہ ” تھا اُن سے حضرت اسحٰق علیہ السلام پیدا ہوئے اور دوسری کا نام ” ہاجرہ ” تھا ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پہدا ہوئے ، اور تیسری کا نام ” قطورا ” تھا ان سے ” مدین ” کی ولادت ہوئی۔
مدین ایک خوبصورت بستی تھی ، آب و ہوا کی لطافت و پاکیزگی نہروں اور آبشاروں کی کثرت نے اس مقام کو اس قدر شاداب و پُرفضا بنادیا تھا اور یہاں میوؤں پھلوں اور خوشبودار پھولوں کے اس قدر باغات اور چمن تھے کہ اگر کوئی شخص آبادی سے باہر کھڑے ہوکر نظارہ کرتا تو اس کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ نہایت خوبصورت اور سرسبز و شاداب و گھنے درختوں کا ایک جُھنڈ ہے۔۔
حضرت موسیٰ علیہ وہاں کس طرح پہنچے؟
چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام آج تک شاہی ناز و نعمت میں پلے تھے، کبھی محنت و مشقت سے واسطہ نہیں پڑا تھا اور نہ ہی کبھی وطن سے باہر کہیں سفر کرنے کی نوبت پیش آئی تھی ، راستہ کہیں کا نہ جانتے تھے اس لئے اپنے رب پر بھروسہ کیا اور فرمایا کہ :
” امید ہے کہ میرا رب مجھے راستہ دکھادے گا “-
اور ساتھ ہی یہ دعا کی کہ :-
” اے میرے رب ! مجھ کو اس ظالم و ناانصاف قوم سے بچالے ”
حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ فرعون کے خوف سے بھاگ نکلے تھے اس لئے ان کے ہمراہ نہ کوئی رفیق و رہنما تھا اور نہ سفر کا توشہ وغیرہ بلکہ تیز بھاگنے کی وجہ سے برہنہ پا یعنی ننگے پاؤں تھے_
* اب کیا ہوگا ؟
* مدین کا رُخ تو کیا مگر راستہ کون بتائے گا؟
* راستہ میں کہاں سے کھائیں گے؟
* برہنہ پا کیسے چلیں گے؟
* اور پیروں کا کیا حال ہوگا؟
* کیا ان کا حوصلہ اس قدر بلند تھا کہ ان حالات میں بھی مدین کا سفر کریں؟
جی ھاں ! بالکل سفر کریں گے اور ان ناموافق حالات کے باوجود سفر کریں گے_
ﷲ تعالیٰ نے ان کو ایسا حوصلہ عطا فرمایا کہ وہ برہنہ پا سفر کریں گے_
ﷲ تعالیٰ نے ان کو ایسی ہمت عطافرمائی کہ وہ درختوں کء پتوں پر گزارہ رسکیں_
ﷲ تعالیٰ نے ان کی ایسی رہنمائی فرمائی کہ ان کو کسی رہنما کی ضرورت نہ پڑی_
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سفر ایسی سیدھی سڑک پر ڈال دیا کہ سیدھی مدین کو جارہی تھی وہ راوانہ تو ہوگئے مگر خوف طاری تھا کہ کہیں فرعون کی پولیس تو نہیں آرہی؟ کہیں فرعون کا جلاد تو نہیں پہنچ رہا ؟ کہیں فرعونیوں کے ھاتھ میں پکڑا تو نہ جاؤں ؟ اس خوف و ہراس میں انہوں نے سفر مکمل کرلیا ، اس تمام سفر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گزر بسر صرف اور صرف درختوں کے پتوں پر تھی اور برہنہ پاؤں کہ وجہ سے اس طویل سفر نے پاؤں کے تلوؤں کی کھال تک اُڑا دی تھی_
اس پریشان حالی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین میں داخل ہوگئے _