تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ بھوکے پیاسے مسافر آگے کہاں گئے ؟
یہ پریشان حال مسافر یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین میں پہنچ گئے ابھی تک شہر کے باہر تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کوئیں کے سامنے بھیڑ لگی ہوئی ہے اور جانوتوں کو پانی پلایا جارہا ہے مگر اس جماعت سے زرا فاصلہ پت دو لڑکیاں حیا سے کھڑی ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پر جانے سے رُوک رہی ہیں_
ان میں اتنی قوت نہ تھی کہ مجمع کو ہٹادیں اور کوئیں تک پہنچ جائیں۔
اُن میں اتنی طاقت نہ تھی کہ بذات خود بھاری ڈول نکال لیں_
یہ حیا دار اور شریف گھرانے کی لڑکیاں ہو نیکی وجہ سے مجمع میں شامل نہ ہوسکتی تھی _
یہ ضعیف اور کمزور مخلوق ہونیکی وجہ سے لوگوں نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہ دی_
عورت ذات ہونے کی وجہ سے لوگوں نے انہیں پسِ پُشت ڈال رکھا تھا_
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف سے علم اور دانائی عطاء فرمائی تھی ، بنی اسرائیل کے ساتھ اہل مصر کا معاملہ دیکھ کر انہیں تجربہ ہوگیا تھا وہ سمجھ گئے کہ یہاں وہی سب ہورہا ہے جو دنیا کی ظالم طاقتوں نے اختیار کررکھا ہے اور ﷲ تعالیٰ کے بہترین قانون کو توڑ کر قوموں کا سارا نظام ظلم کی بنیادوں پر قائم کردیا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیاں کمزور اور ضعیف گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں تب ہی تو اس انتظار میں ہیں کہ قوی اور سرکش لوگ جب اپنے جانوروں کی سیراب کرچکیں اور ہر آنے والا پانی پر سے چلاجائے تو کھچا پانی ان کے جانوروں کا حصہ بنے ، ہر قوی نے ضعیف کے لئے یہی قانون تجویز کیا ہے کہ ہر فائدہ میں وہ مقدّم اور آگے رہے اور ضعیف و کمزور موخر اور پیچھے !
اگر چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھکے ماندے اور بھوکے پیاسے تھے مگر وہ ﷲ کے بننے والے نبی تھے، ضعیفوں کی مدد اور مظلوموں کی دستگیری ان کے فطری جذبات میں شامل تھی، ان سے یہ حالت دیکھی نہ گئی اور آگے بڑھ کر لڑکیوں سے دریافت کیا کہ _
تم پانی کیوں نہیں پلاتیں؟
یہاں پیچھے کس کھڑی ہو؟
دونوں نے جواب دیا کہ :–
” ہم مجبور ہیں ہم ان لوگوں سے مزاحمت و مقابلہ نہیں کرسکتے اگر ہم جانوروں کو لے کر آگے بڑھتے ہیں تو یہ طاقت ور لوگ زبردستی ہم کو پیچھے ہٹادیتے ہیں _ اور ہمارے والدین بہت بوڑھے ہیں، اُن میں اب یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ ان کی مزاحمت کو دور کرسکیں، پس ہم اس انتظار میں ہیں کہ جب یہ سب لوگ پانی پلاکر واپس ہوجائیں گے تب بچاہوا پانی پلاکر ہم لُوٹیں گے یہ ہی ہمارا روز کا دستور ہے _
ان کا جواب سُن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو غیرت آئی کہ میری موجود گی میں یہ صِنف نازک ہمدردی سے محروم رہے _ وہ آگے بڑھے اور تمام بھیڑ کو چیرتے ہوئے کنوئیں پر جا پہنچے اور کنوئیں کا بڑا بھاری ڈول اُٹھایا اور تنہا کھینچ کر لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلادیا _ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مجمع کو چیرتے ہوئے جُرات کے ساتھ کھسنے لگے تو اگر چہ لوگوں کو ناگوار گزرا مگر اُنکی جلالی صورت اور جسمانی طاقت سے مرعوب اور خوف زدہ ہوگئے اور ڈول کو جو لوگوں کی ایک جماعت ملکر کجینچتی تھی تنہا کھینچتے دیکھ کر ان کے سامنے ہار مان گئے _
یہ لوگ کل تک اپنی قوت کے بَل بُوتے پر کمزوروں اور ضعیفوں کو پیچھے ہٹادیتے تھے اور ان کے حقوق و جاہت کو پامال کرتے تھے _
یہ لوگ کل تک عورتوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے اور ان کے ضعف و کمزوری سے غلط فائدہ اُٹھا کر انہیں پیچھے دھکیل دیاکرتے تھے _
یہ لوگ کل تک شریفوں کی شرافت کا لحاظ نہ کرتے تھے اور حیادار لوگوں کے ساتھ انتہائی نامناسب سلوک کرتے تھے _
یہ لوگ کل تک ان لڑکیوں کو کمزور اور ان کے والدین بوڑھا دیکھ کر ان کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے اور اُنہیں پسِ پُشت ڈالدیا کرتے تھے _
آج حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سبق سکھادیا اور اپنے عمل سے بتادیا کہ طاقتور لوگوں کو ضعیفوں پر ظلم اور ناانصافی کا معاملہ نہیں کتنا چاہیئے بلکہ ﷲ کی دی ہوئی اس نعمت سے کمزوروں ، ضعیفوں اور مظلوموں کو فائدہ پہنچانا چاہیئے _ تاکہ ﷲ تعالیٰ کی اس نعمت کا صحیح استعمال اور اس کا شکر ادا ہو ورنہ کل کو ﷲ تعالیٰ کسی اور بڑے طاقتور کو ظالموں پر مسلط کر سکتا ہے _
ہم کو بھی اپنی قوت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے مظلوموں اور ضعیفوں کی مدد کرنی چاہیئے _ تاکہ ﷲ تعالیٰ ہم پر کسی اور بڑے طاقت ور کو مسلط نہ کرے _
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کہاں جاسکتے تھے ؟؟
کوئی شناسا نہیں تھا _
کسی سے کوئی تعارف نہیں !
مدین کی سرزمین سے غیر مانوس !
شہر کے راستوں سے بالکل ناواقف !
مدین کے گلی کوچوں سے قطعی ناآشنا !
یہاں کے لوگوں کے لئے بالکل اجنبی !
یہاں کے باشندوں کے لئے بالکل اجنبی !
یہاں کے لوگوں کی عادات و اطوار سے بالکل ناواقف !
یہاں کے حالات سے بھی ناواقف !
پھر یہ خوف کہ :–
یہاں پر کہیں فرعون کے چیلے تو نہیں رہتے ؟!
یہاں پر کہیں فرعون کی پولیس تو گشت نہیں کرتی ؟!
یہاں پر کہیں فرعون کے جاسوس تو نہیں چھپے ہوئے ؟!
یہاں کون مددگار بنے گا یہاں کون ہمدری کرے گا ؟!
یہاں پر کہاں ٹہریں گے یہاں کون کھلائے گا پلاۓ گا ؟!
انہیں تفکرات میں گِھرے ہوئے غموں سے نڈھال ہوکر ایک درخت کے سائے میں جابیٹھے اور ﷲ کے حضور دعا مانگنے لگے کہ :–
پرور دگار !
” اس وقت جو بھی بہتر سامان میرے لئے تو اپنی قدرت سے بھیج میں اُس کا محتاج ہوں ، یعنی کھانے اور ٹھکانے کا بندوبست اور انتظام کردے ”
یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا میں مصروف تھے ،
اُدھر لڑکیاں گھر واپس چلی گئیں اور وہ لڑکیاں خلاف عادت وقت سے پہلے گھر پہنچیں تو اُن کے والدین کو سخت تعجب ہوا اور دریافت کرنے پر لڑکیوں نے گزرا ہوا ” ماجرا ” سنایا کس طرح ایک مصری شخص نے ان کی مدد کی چونکہ انہوں نے نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سایہ پکڑ تے ہوئے دیکھ لیا تھا اس لئے وہ سمجھ گئیں کہ :–
یہ مسافر ہے ، یہ بے سہارا ہے ، یہ پردیسی ہے ، یہ وضع قطع ے مصری لگتا ہے ، یہ شریف آدمی ہے ، ان کی نگاہ محفوظ ہے ، یہ بے گھر اور بے ٹھکانہ ہے ، ان کے پاؤں میں چپل تک نہیں ، ان کا یہاں کوئی شناسا نہیں ہے ، یہ درخت کے نیچے متفکر بیٹھا ہے ، یہ سمجھدار اور باوقار شخص ہے ، یہ طاقتور لیکن معصوم آدمی ہے _
اس لئے انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ وہ مسافر ہے ، اُس کا کوئی گھر بار نہیں ہے ، درخت کے نیچے سائے میں بیٹھ کر سوچ رہا ہے _ ان کے والد نے ایک لڑکی کو بھیجا اور کہا کہ جلدی جاؤ اور اس کو میرے پاس لے آؤ _
جاری ہے۔۔۔
ماشاءاللہ بہت خوب 🌹🌹🌹🌹
اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت و توفیق عطا فرمائے
آپ لکھتی رہیں اور لوگ مستفید ہوتے رہیں