تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
@SiddiquiMarwah
کہیں فرعون کے سامنے شرمندگی تو نہ اُٹھانی پڑے گی ؟
کیوں کہ یہ بچہ اس کے دل کی دھڑکن ہے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اس کے دل کا قرار ہے ، اس کی محبت اور خوشیوں کا مرکز ہے ،
مگر چونکہ یہی بچہ بنی اسرائیل کے مستقبل کا ہادی اور رہبر ہے اور ﷲ کے نبی اور ﷲ کی مخلوق کے رہنما ہیں اس لئے اس آزمائش میں ﷲ تعالیٰ نے اس کو کامیاب کیا کہ :_
” ﷲ نے فورا اپنے فرشتہ جبریل علیہ السلام کو بھیجا کہ ” جاؤ ان کا ھاتھ انگاروں کی طرف پھیر دو ” ،،
چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے ان کا ھاتھ انگاروں کی طرف پھیر دیا ۔
تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انگارہ اُٹھاکر منہ میں رکھ لیا جب فرعون نے یہ ماجرہ دیکھا تو فورا ا نگارہ نکال دیا ۔
سیکینڈ بھر کا کام تھا ، ہوگزرا ، مگر زبان پر داغ پڑگیا اور زبان موٹی ہوگئی ، اور اس سے زبان میں لکنت پیدا ہوگئی ۔
اب فرعون کی بیوی کی بات بن گئی اُس نے کہا کہ :
” آپ نے واقعہ کی حقیقت کو دیکھ لیا ۔ خواہ دوسروں کی باتوں میں آکر پریشان ہوتے ہیں۔ آپ کو بھی پریشانی ہوئی اور اس بچہ کو بھی تکلیف پہنچی “_
فرعون اس کے بعد اپنا معاملہ ( تھپڑ کا ) بھول گیا اور اس بچہ کے بارے میں جو بد گمانی تھی وہ ختم ہوگئی ۔ فرعون کو کیا معلوم کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انگارہ چکھانا اس کے لئے بڑا مہنگا پڑےگا ۔
اس طرح ﷲ تعالیٰ نے یہ موت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ٹلادی ۔ جو اُن کے سر پر منڈ لارہی تھی ۔ کیونکہ ﷲ تعالیٰ کو ان سے آگے کام لینا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی طرح فرعون کے شاہانہ اعزاز و اکرام اور شاہانہ خرچ پر اپنی والدہ کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے یہاں تک کہ جوان ہوگئے ان جوان ہونے کے بعد ۔
کیا انہوں نے بنی اسرائیل کی کوئی مدد کی ؟
کیا ان وجہ سے قبطیوں کے مظالم میں کچھ فرق پڑا ؟
کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمیشہ وہیں رہے ؟
اگر نہیں تو کہاں گئے اور کیوں ؟
کیا پھر مصر نہیں آئے ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عرصہ شاہی تربیت میں گزارنے کے بعد شباب یعنی جوانی کے دور میں داخل ہوئے تو نہایت قوی اور بہادر جوان نکلے ۔ چہرے سے رُعب ٹپکنا اور گفتگو سے ایک خاص وقار اور عظمت کی شان ظاہر ہوتی تھی۔
اُن کو یہ معلوم ہوگیا تھاکہ وہ اسرائیلی ہیں اور مصری خاندان سے اُن کی کوئی رشتے داری نہیں ہے ۔
انہوں نےیہ بھی دیکھا کہ بنی اسرائیل پر سخت مظالم ہورہے ہیں اور وہ مصر میں نہایت ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ۔
بنی اسرائیل کا ہر شخص محکوم اور قرطبیوں کا ہرفرد حاکم بنا ہوا ہے۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کو قرطبیوں کے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا اور اُدھر قبطیوں کے کتے بھی سیر ہو جاتے ہیں ۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل سے سخت بےگاریں لی جاتی ہیں ۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ جانوروں سا کا معاملہ کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل پر قبطیوں کے بچے بھی ہنستے اور ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کو دیکھ کر قبطیوں کے کتے بھی بھونکنے لگتے ہیں۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کے مَردوں کو غلام اور ان کی عورتوں کو باندی بنارکھا ہے۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کے مسائل حل کرنے کی بجائے اور بڑھادیئے جاتے ہیں۔
انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل پر ہونے والے ظلم وستم کی کوئی حد نہیں ۔
انہوں ے دیکھا کہ بنی اسرائیل کی تکلیف و پریشانی اور قبطیوں کی عیاشی و فحاشی کی کوئی انتہا نہیں۔
یہ دیکھ کر اُن کا خون کھونے لگتا اور موقع بہ موقع عبرانیوں یعنی اسرائیلیوں کی حمایت و نصرت میں پیش پیش ہوجاتے اور ہر ممکن انکی مدد فرماتے۔
مصریوں نے جب دیکھا تو ان کو بنی اسرائیل پر مظالم اور تذلیل و توہین کرنے کی ہمت نہ رہی جو اس سے پہلے ان لوگوں کی طرف سے ہمیشہ بنی اسرائیل پر ہوتا رہتا تھا ۔ چنانچہ ان مصریوں کے مظالم عبرانیوں یعنی اسرائیلیوں پر کم ہونے لگے۔
جاری ہے
بہت زبردست حمیرا (@مرواصدیقی)
ماشاءاللہ بہت ہی پیارے اور خوبصورت انداز بیان ھے آپ ہمارے گروپ کی ممبر ہیں لیکن آج پتہ چلا آپ تو بہت تحقیق و ریسرچ رکھتی ہیں
❤️❤️❤️