تحریر : حمیرا ( مروہ صدیقی )
قسط نمبر 2
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے محل میں لیجایا گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سخت دشمن تھا کہ اگر اِسے خبر ہوگی تو ایک سانس کی بہی مہلت نہ دے
مگر خدا کا فیصلہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سخت ترین دشمن کے ہاتھوں پر پرورش پائیں اس لئے اُسے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ بچہ کون ہے ؟ اور کہاں سے آیا ہے ؟ اُسے صرف اتنا معلوم ہے تھا کہ ایک خوبصورت پیارا بچہ صندوق میں ملاہے۔ فرعون کی ایک بیوی تھی جسکا نام تھا ” آسیہ ” اُس کے کوئی اولاد نہ تھی۔
جب اس نے اُس بچہ کو دیکھا تو وہ خوشی سے باغ باغ ہوگئی۔ اور انتہائی محبت سے اس کو پیار کیا ( یہ عورت فرعون کے خاندان سے تھی جو بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکی تھی ، بعض کا خیال ہےکہ یہ عورت اسرائیلی تھی بہر حال یہ بہت پاکباز عورت تھی )
محل کے خادموں میں سے کسی نے کہا کہ جناب !
* یہ تو اسرائیلی بچہ معلوم ہوتا ہے ۔
* یہ تو ہمارے دشمنوں کے خاندان کا بچہ ہے ۔
* اس کا قتل کردینا ضروری ہے۔* کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی خواب کی تعبیر ہو۔
اس بات کو سُن کر فرعون کو بہی خیال پیدا ہوا ، مگر فرعون کی بیوی نے جب شوہر کے تیور دیکھے تو کہنے لگی کہ ” ایسے پیارے بچہ کو قتل نہ کرو ، کیا عجب کہ یہ میرے اور تیرے لئے آنکھوں کا ٹھنڈک بنے ، یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنالیں ، اور ہمارے لئے اس کا وجود فائدہ مند ہو ، یعنی اگر یہ وہی اسرائیلی بچہ ثابت ہو جو تیرے خواب کی تعبیر بننے والا ہے تو ہماری محبت اور آغوش تربیت شاید اس کو مضر اور خطرناک ہونے کے بجائے مفید ثابت کردے ”
فرعون راضی ہوگیا ۔ مگر فرعون اور اس کی کے خاندان کو یہ کیا معلوم کہ خدا کی تقدیر ان پر ہنس رہی ہے کہ رب العالمین کی کرشمہ سازی دیکھو کہ تم اپنی نادانی اور بے خبری میں اپنے دشمن کی پرورش پر مگراں مقرر کئے گئے ہو۔
خدا تعالیٰ کیسا حکمت والا ہے کہ اپنے محبوب بندے کی پرورش اپنے دشمن سے کرارہا ہے تاکہ بادشاہ کے گھر میں پرورش پاکر فرعون کے رُعب سے متاثر نہ ہوں ، اور بڑے لوگوں کے طور طریقہ سے واقفیت ہوجائیں اور بعد میں فرعون سے مقابلہ کرنا آسان ہوجائے اور فرعون کو معلوم ہوجائے کہ جس کے ڈر سے بنی اسرائیل کے ہزار ہا معصوم بچے قتل کراچکاہوں وہ یہی ہے جسے بڑے چاؤ پیار سے پرورش کیا۔ اور فرعون کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اپنی تباہی کا سامان اپنے ہی ہاتھوں تیار کیا ۔ کسی اور کا کیا قصور؟
آگے کیا ہوا ؟
آگے سوال پیدا ہوا کہ اس بچہ کی پرورش کس طرح ہو ؟
اسے دودھ کون پلائے ؟
اسے دودھ پلانے اور اس کی پرورش کرنے کے لئے کس قسم کی عورت کا انتخاب کیا جائے ؟
کیوں کہ بادشاہ کے گھر کا مسئلہ ہے اس کے لئے تو پاکیزہ اور شائستہ طبعیت کی عورت درکار ہے۔ سنجیدہ اور سلیقہ مند دایہ کی ضرورت ہے ، جو شاہی محل کے ماحول کو سمجھے اور اس بچہ کی نزاکت کا بھی خیال رکھے۔
چنانچہ مشورہ کے بعد بڑی بڑی مشہور و معروف دایہ بلائی گئیں مگر اس بچہ نے کسی کا دودھ قبول نہ کیا اونچے گھرانے کی تربیت یافتہ ، سمجھدار ، سنجیدہ ، سلیقہ مند اور ماہر نفسیات ” دایہ ” بلائی گئیں مگر وہ بہی اس بچہ کو دودھ پلانے میں کامیاب نہ ہوسکیں بچہ برابر روتا رہا جس کی وجہ سے شاہی محل میں ایک ہلچل مچ گئی ۔
پھر بڑی دور دراز سے اعلیٰ مہارت رکھنے والی پاکیزہ طبعیت والی دایہ بلائی گئی لیکن اس بچہ نے ان کا دودھ پینے سے بہی انکار کردیا اور مسلسل روتارہا روتارہا ۔
ان عورتوں کادودھ یہ بچہ کیونکر پیتا ﷲ تعالیٰ نے تمام عورتوں کا دودھ اس بچہ پر حرام کردیاہے۔ اور اس بچہ کی طبعیت میں یہ بات پیدا کردی کہ وہ کسی عورت کی چھاتی کو منہ ہی نہ لگائے تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے کیاگیا وعدہ پورا ہوسکے۔
” غمگین نہ ہو ہم اس بچہ کو تمہاری طرف واپس پہنچادیں گے ۔ اور اس کو ہم اپنا رسول اور پیغمبر بنادیں گے ”
جاری ہے۔۔۔