پاکستانی صحت اور تعلیم
کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے تعلیم ۔ صحت ۔ عدل جیسے عوامل کا مظبوط اور خودمختار ھونا بہت ضروری ھوتا ھے۔۔ اور بدقسمتی سے پاکستان میں یہ متزکرہ بالا تینوں عوامل نہ ھی تو مضبوط ھیں اور نہ ھی خود مختار ھیں۔۔۔
میرے ایک اچھے دوست سردار ساجد محمود خان سے حال ھی میں ایک ملاقات ھوئی جس میں سیاسی ۔ سماجی ۔ ادبی مسائل پہ بحث ھوئی۔۔
بحث کا لُبِ لباب یہ رھا کہ اُس حکومت نے ملک اور قوم کیساتھ بہت بڑی دُشمنی کی جس حکومت نے تعلیم اور صحت کو پرائیویٹ سیکٹر میں لیجانے کی اجازت دی اور اس سے زیادہ دُشمنی کا مظاہرہ اُسکے بعد آنیوالی حکومتوں نے کیا جنہوں نے اس سماج دُشمن اقدام کو روکا نہیں ۔۔۔
جب سے ہمارے ملک میں پرائیویٹ ھسپتال اور کلینکس وجود میں آئے ھیں تب سے والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش صرف اس لئے کرتے ھیں کہ ھمارا بیٹا ڈاکٹر بن کر بہت پیسہ کمائے گا جبکہ والدین کی سوچ یہ ھونی چاہئے تھی کہ ھمارا بیٹا ڈاکٹر بن کے ملک اور قوم کی خدمت کریگا۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ والدین کی ایسی سوچ کیوں اور کیسے بنی ؟؟؟
اس طرح کی سوچ کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا کردار ھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا۔۔
ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا مقصد پاکستان میں تعلیم کا فروغ نہیں بلکہ تعلیم کا کاروبار کرنا ھوتا ھے۔۔
یہی وجہ ھے کہ ھمارا معاشرہ دن بہ دن اخلاقی گراوٹ کا تیزی سے شکار ھوتا جا رھا ھے۔۔
تعلیم اور صحت کا پرائیویٹ سیکٹر میں جانے کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ھوا کہ ھمارا معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ھو گیا۔
ایک طبقہ امیر ھے جو اپنا اور اپنے خاندان کا اچھے سے اچھے پرائیویٹ ھسپتال میں مہنگے سے مہنگا علاج بھی کروا سکتا ھے اور اسی خاندان کے بچے اچھے سے اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ فیسیں ادا کرکے تعلیم حاصل کرکے اچھے اچھے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں اچھے عُہدوں پر بہت آرام کیساتھ فائز ھو جاتے ھیں کیونکہ ان کے پاس پیسے کی طاقت کے ساتھ ساتھ ریفرینس کی طاقت بھی ھوتی ھے۔۔
اور دوسری جانب ھے ھمارے پیارے پاکستان کا غریب طبقہ جو ایک اندازے کے مطابق کل آبادی کا ایک تہائی ھیں۔۔
یہ غریب طبقہ کسی اچھے پرائیویٹ ھسپتال میں علاج کرانے کا صرف خواب ھی دیکھ سکتے ھیں اور خواب دیکھتے دیکھتے سسک سسک کر مر جاتے ھیں۔۔
اور اسی غریب طبقے کے بچے کسی بھی اچھے پرائیویٹ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے البتہ سرکاری سکول کالجوں میں پڑھ کر اچھے نمبر لے بھی لیں تو شائد ھی ان کو کسی اچھے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں نوکری ملے۔۔ کیونکہ یہاں ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ھمارا کمزور نظامِ ھوتا ھے۔۔
میرٹ کی دھجیان اُڑا دی جاتی ھیں مگر ھمارا نظام عدل اپنی آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھے آرام کر رھا ھوتا ھے ابھی تک تو ایسا لگتا ھے کہ ھمارے نظامِ عدل کو اپنے آرام میں خلل بالکل بھی پسند نہیں ھے۔۔۔
تنقید کرنا بہت آسان ھے جو تقریباً سب ھی اچھے طریقے سے کر بھی لیتے ھیں مگر میری کوشش ھوتی ھے کہ مسائل کی نشاندھی کیساتھ کیساتھ اُن مسائل کا حل بھی بتاؤں
اب آتے ھیں ان مسٔلوں کے حل طرف !!!
میرے اور ساجد بھائی کے مطابق اس گھٹیہ اور بوسیدہ نظام سے چٹکارہ صرف ایک ھی طرح ممکن ھے کہ سارے پاکستان میں پرائیویٹ ھسپتال اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پہ مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔۔
جب پاکستان کے تمام لوگوں بشمول سیاستدانوں کا علاج ایک طرح کے سرکاری ھسپتال میں ھوگا تو آپ دیکھنا کہ چند دنوں میں سرکاری ھسپتالوں کی حالت کیسے بدل جائے گی ۔۔
اور اسی طرح چب سب امیر غریب بشمول تمام سیاستدان کے بچے ایک ھی طرح کے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان سکولوں کی حالت بھی دنوں میں ھی ٹھیک ھو جائے گی۔۔۔
اور اگر حکومت یہ قدم اُٹھا لیتی ھے تو ھمارے معاشرے سے طبقاتی تقسیم بھی ختم ھو جائیگی انشاءاللہ۔۔۔
دوستو !!!
میری اور ساجد بھائی کی نظر میں تو یہی ایک حل ھے۔۔
مزید کوئی حل یا تجویز آپ لوگوں کے پاس ھو تو کمنٹ کرکے ھماری رھنمائی ضرور کیجیے گا۔۔
آپکی دُعاؤں کا طلبگار
رانا علی نادر
کراچی