محترم قارئین گزشتہ تین ماہ سے ایک سوال ایک احساس نے دل میں جگہ بنا رکھی ہے بارہا خیال گزرا کہ سر جھٹک کر آگے گزر جاؤں۔۔ مگر کیا کیجیے کہ غالب کے مصرع کی گردان بھی کام نہ آئی۔۔۔
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔۔۔
بہر کیف اپنے احساس میں آپ کو شریک کرتا ہوں۔۔ فنانس بل کی منظوری کے لیے اعلی ایوان کا اجلاس جاری ہے۔۔۔
“جنابِ اسپیکر پڑھا ہوا سمجھیں”
یہ الفاظ تھے ایک پارلیمانی ممبر کےجس نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پڑھتے ہوئے ادا کیے۔
بعد ازاں یہی جملہ ایک دوسرے ممبر نے دہرایا جو انگریزی زبان پر عبور نہ رکھتے ہوئے بل کو پڑھنے سے کلی طور پر قاصر تھے یکے بعد دیگرے سلسلہ جاری رہا۔
مزید ممبر اور پھر ایک خاتون ممبر نے بھی یہی بڑے ادب سے کہا کہ جنابِ اسپیکر اگر اجازت ہو تو میں کہوں کہ آپ اسے پڑھا ہی سمجھیں۔ کیا بات ہےبھئی واہ اسی بات پر ایک واقعہ یاد آگیا۔
میں اپنے دو ادبی دوستوں کے درمیان بیٹھا تھا فرضی نام اے۔اے کی کلام سنانے کی باری آئی تو موصوف نے غیر توقع طور پر انگریزی میں نظمیں اور دیگر اصنافِ سخن میں خوب شاعری سنائی بزرگ شاعر مرحوم اختر علی انجم نے جھوم جھوم کر سر ہلاتے ہوئے واہ واہ, کیا بات ہے, آہ خوب, کیا کہنے کہتے ہوئے داد و تحسین سے خوب نوازہ۔
جب میں نے حیرت سے اختر بابا سے پوچھا بابا جی آپ کو اے۔اے کی شاعری اچھی لگی؟ کہنے لگے بھئی انگریزی میں تھی تو اچھی ہی ہوگی۔ہاہاہا
اسی لیے سچ مچ مجھے تو بڑی خوشی ہوئی,
اس لیے نہیں کہ فنانس بل انگریزی میں چھپا ہوا تھا یا اس لیے نہیں کہ جناب اسپیکر نے فوراً سر ہلا کر جواب دیا کہ ٹھیک ہے ” سمجھا گیا” یا اس لیے نہیں کہ سرکاری طور پر اردو کو لکھنے پڑھنے اور بات کرنے کا پچھلے دنوں وزیراعظم نے نوٹس جاری کیا بلکہ اس لیے خوشی ہوئی کہ جتھے دی کھوتی اوتھے ای ونج کھلوتی۔
انگریزی کی یہ ہزیمت دیکھ کر انگریزی ادب اور اس کے ادبأ دونوں بلکہ برابر میں بیٹھی ملکۂ اردو کو بھی افسوس اور شرمندگی کا احساس ہوا ہوگا۔
کم از کم اردو اتنی بے حس اور بے قدر زبان نہیں کہ وہ اپنے ہونے کے احساس اور اپنی اس آواز کو جو کسی دوسرے سے یگانگت کے باوجود اپنی انفرادیت اور فصاحت کی بازگشت کئی حسین وادیوں سے سنائی دیتی ہو کو فراموش کر دے یا اپنی اور دوسروں کے حق میں جو دنیا میں اہمیت کے حامل ہیں ان کی حق تلفی پر چپ سادھ لے۔
لہذہ اردو کے پرستار آج بھی اردو کے نام پر سانس لیتے ہیں۔پر لطف خوشبو کو محسوس کرتے ہیں اور اردو پر رشک کرتے ہیں.
یہاں مجھے فیض احمد فیض کا نکتہ رس جملہ یاد آگیا کہ ” آپ جس زبان میں خواب دیکھتے ہیں دراصل وہی زبان آپ کے اظہار کے لیے درست ہے”۔۔۔
عزیز قارئین ۔۔ غیروں کی زبان, لباس, تمدن, ثقافت اور رہن سہن کو اوڑھ لینے سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ اپنی پہچان کی حفاظت کرنے والی قومیں قائم رہا کرتی ہیں۔ دوسروں کی نقل ہمیشہ احساسِ محرومی کی بیماری ہی دریافت کرتی ہے. یہ ایک سوچی سمجھی دیرینہ اردو دشمنی سازش کا حصہ ہے کہ سرکاری اداروں, عوامی حلقوں, ابلاغِ عامہ کے ذریعیے انگریزی زبان کو فوقیت دے کر اردو کی توہین کی جائے. ہماری فطری تقاضوں سے لبریز ماں جیسی محبت کرنے والی اردو کے ہوتے ہوئےانگریزی کی ٹانگیں توڑی جائیں اور اس کی مرہم پٹی میں لگے رہیں تاکہ دھیان اپنی قابلیت سے ماوریٰ ہوجائےحالانکہ یہ وہ ماں ہے جو ہمارے ادھورے اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو بھی سمجھ لیتی ہےاور جسے اپنے بچے کے مختصر لفظوں کی آواز بھی سریلی محسوس ہوتی ہے.
آسان اور سیدھی سی بات ہے کہ اردو میں بات کی جائے گی تو ایک عام پاکستانی خواہ وہ ناخواندہ ہو سمجھ جائے گا کہ تقریر کا لبِ لباب کیا ہے اور اس کی تہہ میں کون سے گہر موجود ہیں وہ سمجھ جائے گا کہ ایوانِ بالا میں آخر ہو کیا رہا ہے وہ سمجھ جائے گا کہ اعلانات اور تعمیل کاری میں کیا تضاد ہے
اپنی زبان میں ہر شخص اپنے دل کی بات فطری طور پر آسانی سے کہہ پاتا ہے دوسروں کی زبان میں لگی لپٹی کر کے بھی پوری بات نہیں ہو پاتی جس سے مسائل حل کی جانب نہیں بلکہ مسائل در مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ قوم کو بے وقوف اور لا علم رکھنے کیلیے انگریزی میں بات کیجاتی ہے اور تو اور ، بیرونی ملک دشمن عناصر کو اطلاع دینے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلیے بھی بعض ضمیر فروش سیاستدان اس سہولت کا فائدہ گاہے گاہے اٹھاتےرہتے ہیں۔مگر اس بار یہ کیا ہوا کہ فنانس بل پڑھا ہی نہ جا سکا۔
اگر یہ اردو میں تحریر ہوتا تو عوام تک بجٹ کے نقصانات اور فائدہ کے سبز باغ کا بیان پہنچتا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
یہ حال ہے ہمارے انتہائی با وقار, معزز اور جمہوریت کے علمبردار جناب پارلیمان کا۔
جس کی تعریف کرتے کرتے زردار و بادشاہِ بدعنوانی کے خاص دوست اور ناخواندہ ساکنانِ سندھ کے پیرِ خاص جناب خورشید شاہ بالکل نہیں تھکتے۔
اردو ادب سے متعلق شخصیات اور پاکستان کے عوام حکومت اور معزز ایوانِ بالا و ایوانِ ثانوی سے اپیل کرتے ہیں کہ اردو کی ترویج کیلیے خطوط اردو ہی میں لکھے جائیں,
ایوان میں اردو میں بات کی جائے, اردو میں لکھی درخواستیں قبول کی جائیں.اردو میں بات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، سرکاری اداروں میں اردو کو پزیرائی دی جائے تاکہ نجی اداروں اور کمپنیوں میں اردو لکھنے، پڑھنے کی عادت پڑے. قومی زبان اردو کو حقیقی معنوں میں ہم آہنگی اور روابط کا ذریعہ بنایا جائے.
عدالتوں میں کاغذات کی تیاری اور وکلأ سے لیکر پیشکار اور جج تک ہر جگہ اردو بولی جائے تاکہ کسی شہر یا کسی گاؤں کا ایک ناخواندہ مدعی یا ملزم سمجھ سکے کہ اس کی قسمت کا کیا فیصلہ کیا جارہا ہے۔مقروض قوم کو مزید احساسِ محرومی کی طرف نہ دھکیلا جائے.
اردو زبان کے انگریز ادیب کے نام سے مشہور ماہرِ لسانیات رالف رسل نے چالیس برس اردو زبان اور اس کی تہذیب کو سمجھنے میں گزار دی اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ” اپنی زبان کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان کی طرف جست بھرنا بے وقوفی ہے”۔۔۔
ایسا نہیں کہ میں دیگر زبانوں کے خلاف ہوں یا ان کی افادیت سے آگاہ نہیں ہوں۔۔ میرا ماننا ہے کہ دنیا کی تجارتی منڈی میں رہنے کے لیے دیگر متعلقہ زبانیں بھی سیکھنی چاہیئے مگر اندرونی طور عوام کے معاملات اردو میں ہی ہوں، اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے نہ کہ صرف کاغذی بنیادوں پر رکھا جائے. جب تک پاکستان میں برابری کی بنیاد پر تعلیمی اداروں, کالجوں, اور یونیورسٹیوں میں تعلیم نہیں دی جائےگی متوسط طبقہ کی خود اعتمادی مضبوط نہیں ہوگی اور یوں ملک کے مخصوص لوگ ہی ہمیشہ کی طرح ہر شعبہ ہائے کے ساتھ ساتھ ایوان میں بھی بھرتی ہوتے رہیں گے۔
اہلیانِ ادب اور اردو کے دلدادہ آنے والے وقتوں میں اس دن کو روئیں جب بڑے ادب سے یہ کہا جائےگا کہ جناب ِ اسپیکر پڑھا ہوا سمجھیں اور اس دن جناب اسپیکر ایسی انگریزی میں جواب دے رہے ہوں گے کہ
It’s Okey, Understood.
ٹھیک ہے “سمجھا گیا”
کیا کہنے افضل بہت خوب۔۔ اسے کہتے ہیں موضوع کا احاطہ کرنا۔ ایک ادیب کی نگاہ ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ یہ مختلف النوع سوچ اور زاویہ نظر ہی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ نئے لکھنے والوں کو چاہیئے کہ آپ کی تحاریر سے سیکھیں کہ لکھا کیسے جاتا ہے۔۔
شکریہ مغل صاحب المعروف انصافستان آپ ایسے دوستوں سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے
آپ کا کہا مستند ہے جزاک اللہ
بہت عمدہ اور متوازن تحریر ہے۔ الفاظ کی پختگی اور موضوع کا مکمل احاطہ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔
اگلے بلاگ کا انتظار ہے اب۔
#ظفریات