کورونا کیسے ختم ہو گا
تقریباً 2 سال سے اوپر کا عرصہ بیت گیا.زندگی کے معمولات کو عام حالات سے مختلف ہوے وہ باجو دنیا کے ایک خطے سے شروع ہوئی تھی دیکھتے ہی دیکھتے عالمی وبا کی صورت اختیار کر گئی۔
زندگی کے معمول میں ایک دن اتار چڑھاؤ انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور یہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ دنوں سے مہینوں پر محیط ہوتا چلا گیا جو جانی نقصان اس وبانے پہنچایا وہ تو روزانہ کی بنیاد پر گناگیا کہ آج اتنے لوگ اس موزی بیماری سے جنگ ہار گئے اور اس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔
لیکن وہ نقصان جو زندہ دماغوں پر ہوا اسے ماپنے کا کوئی آلہ نہیں اور نہ ہی گننے کے لیے کوئی تعداد ہے کیونکہ وہ نقصان ذہنی صحت کا ہے جس کو عام حالات میں بھی ہمارے معاشرے میں کم ہی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ ہماری اکثریت میں اسے صرف جسمانی تکلیف کہا جاتا ہے ۔
امریکہ میں ایک حالیہ سروے کے مطابق 18 سال کی عمر سے زائد افراد میں ڈپریشن جیسی بیماری میں تین گنا تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ ہے اور شاید ہمارے ملک میں تو اس سے بھی زیادہ ہو کچھ کہنا بعید از قیاس ہے۔
ڈپریشن کی وجوہات میں سب سے پہلے نمبر پر قریبی عزیزوں کو وینٹی لیٹر نہ ملنے کی وجہ سے یا
پھر دوائیوں کے وقت پر میسر نہ آنے کی وجہ سے بھی سانس لینے میں دشواری کو دیکھتے ہی دیکھتے وہ نقش ذہن پر چسپاں ہو کر رہ گئے۔
SOPs
پر عمل درآمد کیلئے پارکس اور تفریحی مقامات کو مکمل بند کر دیا گیا جو کہ بے شک وبا کے قابو کے لیے اچھا قدم تھا لیکن اس سے صحت مندانہ سرگرمیاں بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئیں اور تمام فارغ وقت سوشل میڈیا کی نزر ہونے لگا ۔
لہذا جہاں اس وبا کو روکنے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر اقدامات کئے جا رہے ہیں اس کے زمینی صحت پر اثرات کو بھی زیر غور لانا چاہیے اس کے لیے لوگوں کو ٹی وی اور باقی میڈیا کے ذریعے آگاہی کے پیغام دیے جائیں زہینی صحت کو بہتر بنانے روز مرہ کی روٹین میں معمولی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جائے روزمرہ کی ورزش یا چہل قدمی کی تمام SOPs پر عمل کرتے ہوئے معمول بنایا جائے۔
اور سرکاری سطح پر سائیکاٹرسٹ کی موجودگی لازمی بنائی جائے اور عوام کو ان سے مدد لینے پر ابھار جاے اور عوام کو ان سے مدد لینے پر ابھارا جائے تاکہ وہ منفی اثرات ہماری نسل کی شخصیات کو تباہ کر کے جرائم میں اضافہ کی بجائے وہیں پر قابو کر لے جائیں۔
از کالم غلام رسول
@pak4army