حمیرا (مروہ صدیقی)
@SiddiquiMarwah
{الَّذِینَ یاکلونَ الرِّبَا لَا یقُومُونَ إِلَّا کمَا یقُومُ الَّذِی تَخبطُهہ الشَّیطَانُ مِنَ الْمَسِّ}
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔
جس قوم میں سود عام ہوجائے اللہ تعالیٰ اُس پر وبائیں مسلط کر دیتا ہے ۔
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ابن مُلَقَّن،(804ھ) ج 6، ص 447)
سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن و حدیث کی رو سے حرام ہے۔ نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام و ناجائز ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے،
اس کے علاوہ کچھ نہیں، اس لیے سودی معاہدہ کرنااور سود کی بنیاد پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔
ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ سود بلکہ سود کے شبہ سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔
سود کے مسئلہ میں بھی قرآنِ کریم نے اصول بیان کیے ہیں، جن کی تفسیر آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشار فرمائی، چنانچہ سود کا لینا اور دینا دونوں قرآن و حدیث کی رو سے حرام ہے، اسلام میں جس طرح سود لینا حرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام و ناجائز ہے۔
اور یہ حکم ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے ہے، صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ سود سے بچے، بے شک کسی ریاست میں سودی نظام کا خاتمہ وہاں کی حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر ریاست ا س کا اہتمام نہیں کرتی تو ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے طور پر سود سے بچے۔
قرآنِ کریم میں سود کی حرمت کا ذکر مطلق ہے، اس میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ سود لینے والے پر حرام ہے دینے والے پر نہیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سودی نظام ختم کرے، پھر احادیثِ مبارکہ میں اللہ کے نبی ﷺ نے سود کی تمام اقسام کو حرام قرار دیا ہے۔
کسی نے ابھی مجھ سے کہا کہ اسلامی بینکنگ میں حرام حلال کی تمیز نہیں ہے تو ہم فرق کیسے کریں؟
بھئی میزان بینک فیصل بینک 7% منافع کس اسلامی شریعت کے مطابق پہلے ہی سے منافع متعین کررہی یے؟
کیا پہلے سے طے شدہ منافع کا شرح سود نہیں ہے ؟
اتنی سی بات کو آپ بطور مسلمان سمجھ نہیں سکتے؟
بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے؛ لہٰذا بصورتِ مسئولہ بینک میں بچت سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اس پر منافع لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔
ایڈوانس بیلنس (موبائل لون لینے) کا حکم یہ ہے کہ موبائل کمپنی اگر زائد رقم خدمت مہیا کرنے کے عوض وصول کرتی ہے (یعنی سروس چارجز کی مد میں زائد رقم لیتی ہے) تو ایڈوانس لینا جائز ہے۔
بیلنس ختم ہونے کے بعد بعض موبائل کمپنیاں جو مسیج بھیجتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی ایڈوانس کی سہولت دے کر اس پر جو کچھ رقم کاٹتی ہے وہ سروس چارجز کی مد میں کاٹتی ہے، لہذا ایسی موبائل کمپنیوں سے ایڈوانس بیلنس کی سہولت حاصل کرنا جائز ہے،
تاہم اگر کوئی شخص احتیاط کے درجہ میں اس سے بچتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
اور اگر کمپنی بطورِ قرض دے کر زائد رقم وصول کرے تو پھر ایڈوانس لون لینا ناجائز ہوگا۔