قصہ تمام۔۔۔
دیویکا کے ساتھ فلم دیکھنے سے پہلے روحانی کیفیات میں واپس آنا بہت ضروری تھا۔ جتنی جلدی اس نے بکنگ کرائی تھی اور مجھ سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا اس سے میں بیک وقت خوش فہمی و غلط فہمی کا شکار ہو رہا تھا۔ بہت ساری آپشنز پر غور کرنے کے بعد ہم نے درگاہ حضرت حاجی علی علیہ رحمہ کی حاضری کا ارادہ کیا جو ہمارے دفتر کے بہت قریب تھی۔
حاجی علی رح کے مزار کی ممبئی میں وہی اہمیت ہے جو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی رح کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مزار سمندر کے اندر ہے۔ کہتے ہیں کہ سمندر میں طغیانی کی صورت میں راستہ تو زیر آب آجاتا ہے لیکن مزار میں پانی داخل نہیں ہوتا۔
حاجی علی کی درگاہ ممبئی کے ورلی سمندر کے کنارے ایک چھوٹے سے ٹاپو پر واقع ہے۔ اس درگاہ کی زیارت کے لیے مسلمان ہی نہیں ہندو بھی کثرت سے آتے ہیں۔ اس طرح یہ ممبئی شہر میں سماجی طور پرقومی یک جہتی کی مثال بنی ہوئی ہے۔ حاجی علی ٹرسٹ کے مطابق صوفی سیّد پیر حاجی علی شاہ بخاری ازبکستان کے شہر بخارا سے بھارت پہنچے تھے۔ درگاہ 1431ء میں تعمیر کی گئی تھی۔
ہم وہاں پہنچے تو مزار کی طرف جانے والی سڑک پر بہت رش تھا لہٰذا وہاں جانے کا ارادہ ترک کرنا پڑا لیکن حضرت کے روحانی فیوض مجھ ناچیز تک ضرور پہنچ رہے تھے۔ ہم بہت دیر تک وہاں موجود رہے اور لوگوں کے ذوق و شوق کے ساتھ بدعات اور فضول رسومات کا بھی مشاہدہ کرتے رہے جو ہمارے ہاں حضرت لعل شہباز قلندر رح کے مزار پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
شاید ہمارے ملک میں بھی مزاروں پر ماتھا ٹیکنے کا رواج ہندوستانی کلچر سے ہی آیا ہے۔
درگاہ شریف سے نکل کر فلم دیکھنے کا ارادہ ڈگمگا رہا تھا اسلئے میں نے متعدد بار دیویکا کو آفر کی کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارے اور میں واپس ہوٹل چلا جاؤں۔ لیکن وہ بہت پرجوش تھی اور خوشی محسوس کر رہی تھی کہ میں اس کے ساتھ جا رہا ہوں۔ میں اس کی خواہش اور دل ناداں کی بے لذت ضد کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور یہ سوچ کے خود کو تشفی دی کہ اللہ رحیم ہے۔
سنی پلیکس تھیٹر اگرچہ کراچی میں موجود تھے لیکن فلم بینی کا مزاج نہ ہونے کی وجہ سے کبھی گیا نہیں تھا سو اس طرح کے جدید سینما گھروں میں جانے کا میرا یہ پہلا اور تاحال آخری موقع تھا۔ وقت مقررہ پر وہاں پہنچے تو سپروائزر نے ہم دونوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے آفر کیا کہ اگر آپ دوسری فلم کا انتخاب کریں تو بہت اچھی نشستیں مل سکتی ہیں۔ ہم دونوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوا اور بالآخر ہماری راہنمائی کرتے ہوئے وہ ہمیں ایک چھوٹے ہال کی طرف لے گیا۔ بہت ہی شاندار ہال تھا اور نہایت پرسکون نشستیں جہاں اچھی خاصی پرائیویسی دستیاب تھی۔ نانا پاٹیکر کی اس فلم کا نام بھی مجھے یاد نہیں اور شائد فلم کی کہانی بھی بھول چکا ہوں۔۔۔ فلم کے دوران ہی ہم نے ہلکا پھلکا ڈنر کیا اور ایک اچھی شام کا اختتام ہوا۔ ہوٹل پہنچا تو اطلاع ملی کہ متعلقہ تھانے والے بالمشافہ مجھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سالین نے یہاں بھی میری مدد کی اور انہیں بتایا کہ میں اکیلا نہیں آسکتا لہٰذا گاندھی کی تصویر کے ساتھ اگلے روز دیدار کروا دے گا اور یوں ایک خواری سے بچ گیا۔
اگلے دن اتوار تھا اور پیر سے مجھے دفتری کاموں میں مصروف ہو جانا تھا اسلئے ممبئی کے مسلم علاقوں میں جانے کا ارادہ تھا۔ ویسے تو ممبئی میں کافی مسلمان آباد ہیں لیکن کچھ علاقوں میں 80 فیصد سے بھی زائد ہیں ان میں ایک علاقہ بھنڈی بازار بھی ہے۔ مسلمانوں کی ثقافت، معاشرت ، تعلیم و تربیت اور معاشی حالت کا اندازہ کرنا ہو تو یہ بہترین جگہ ہے۔ یہاں بال ٹھاکرے کا نہیں بلکہ سیٹھ داؤود کا سکہ چلتا ہے۔ شہر کے پوش علاقوں میں مسلمان جتنے ٹینشن میں نظر آتے ہیں، یہاں اس کے برعکس نظر آیا۔ کاروبار ، مذہبی آزادی، غربت ، تعلیمی پستی اور غنڈہ گردی سب یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مسلمان کیلئے یہاں جان بھی حاضر کرتے ہیں شرط یہ ہے کہ پاکستانی نہ ہوں۔ پاکستانیوں سے اتنا فاصلہ کیوں ہے، اس کی سمجھ نہیں آئی سوائے اس کے کہ انہیں کہیں قانون نافذ کرنے والے پاکستانیوں سے تعلق کے شبہ میں پریشان نہ کریں۔
ٹیکسی ڈرائیور نے جو اتفاق سے مسلمان تھا، بڑے فخر سے علاقے میں سیٹھ داؤود کی بدولت مسلمانوں کی چوہدراہٹ کا ذکر کیا۔ اس نے وہ ریسٹورنٹ بھی دکھایا جو سنجے دت نے وہاں بنایا ہے اور اکثر وہاں جاتا بھی ہے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود فلم اور فلم سے جڑے کرداروں کو یہاں بھی بہت مقبولیت حاصل تھی۔ مسلمان ہونے کے ناطے یہاں ان باتوں پہ فخر کیا جا رہا تھا جو کہ دین کی تعلیمات کے خلاف تھیں، یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔
دوپہر کا کھانا وہاں کے مشہور ہوٹل میں کھایا اور ایک دوسرے علاقے میں بوہریوں کی مساجد اور عبادت خانے دیکھنے کے بعد واپس ہوٹل آ گیا۔
اگلا پورا ہفتہ شدید مصروفیت میں گزرا، دیویکا اور سالین کے ساتھ گزارا ہوا وقت ایک خواب محسوس ہوتا تھا۔ دفتر کا روایتی ماحول اور روزانہ کسی نئے ساتھی کے ساتھ ڈنر اور نت نئے مشاہدات سے گزرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
ایک شام بینڈراہ میں ساحل سمندر کی سیر کرتے ہوئے ایک جگہ بڑے ہجوم کو دیکھ کر تھوڑا ٹھٹھک گیا۔ عام طور پر سمندر کے کنارے کھڑے ہوں تو ہمارا رخ سمندر کی طرف ہوتا ہے لیکن یہ ہجوم نہایت پرسکون انداز میں ساحل کے قریب بنے گھروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
میرے ساتھی سندیپ نے میری کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ مشہور اداکار شاہ رخ خان کے گھر ‘منت’ کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس امید پر کہ وہ گزرتے ہوئے ہاتھ ہلائے گا اور یہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ شاہ رخ خان کا نام سن کر مجھے بھی خواہش ہوئی کہ اس سے ملاقات کرنی چاہئے۔ سندیپ کی تو جرآت ہی نہیں ہو رہی تھی منت کی طرف جانے کی لیکن میں اسے لے کر چلا گیا۔ خلاف توقع کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔ گیٹ کے قریب بنی کھڑکی میں دو پولیس اہلکار موجود تھے، میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور شاہ رخ سے ملاقات کرانے کیلئے کہا۔ انہوں نے اس طرح ملاقات کو تو خارج از امکان قرار دیا لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ شاہ رخ تو دوبئی شو کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول یہاں آنے والے لوگ کئی کئی دن یہاں کھڑے رہتے ہیں محض خان کی ایک جھلک دیکھنے کی امید پر۔۔۔😀
خیر ہماری کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن سندیپ جیسا پروفیشنل بندہ محض اس بنا پر مجھ سے امپریس ہو گیا کہ میں گھر کے دروازے پر دستک دے آیا تھا۔
ممبئی یاترا اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور میں اس دوران نہ صرف یہاں کے انتہائی غریب اور انتہائی امیر لوگوں کے علاوہ ایک بڑی مڈل کلاس سے بھی متعارف ہوا اور فائیو اسٹار ہوٹلوں سے لیکر ممبئی کی سٹریٹ فوڈ اور دوسرے علاقائی کھانوں سے بھی محظوظ ہو چکا تھا۔
:ممبئی یاترا سے میرے ہندوستان کے بارے میں تاثرات
ہندوستان میں لوگوں کی اکثریت مذہب سے زیادہ علاقائی تعصب کا شکار ہے۔ ایک محدود تعداد شدت پسندوں کی ضرور ہے جو ہندوتوا کے فلسفے کی داعی ہے لیکن مجموعی طور پر اسے بڑے طبقے کی پذیرائی حاصل نہیں۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کی چند اہم وجوہات میں ان کا تعلیم کی طرف راغب نہ ہونا، خاندانی منصوبہ بندی کے حکومتی احکامات کو مذہب کا لبادہ پہنا کر ناقابل عمل قرار دینا اور جدید علوم بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی سے دور رہنا بھی ہے۔ خود کو ایک باغی گروہ کی صورت نمایاں کرنا ، انڈرورلڈ کے مخصوص لوگوں کا آلہ کار بن کے رہنا اور مذہبی جماعتوں کا سیکولر جماعتوں کے بجائے کٹر ہندو جماعتوں مثلاً بی جے پی کا ساتھ دینا جیسا کہ دیوبند مکتبہ فکر کے علماء وغیرہ، بھی مسلمانوں کو تقسیم کر کے کمزور کر رہا ہے۔
مسلمانوں کے کچھ مخصوص خاندانوں نے مذہب، سیاست اور کاروبار میں اپنے آپ کو تسلیم کروایا ہے لیکن بحیثیت مجموعی اپنا وقار کھو دیا ہے۔
ممبئی یاترا پڑھنے اور حوصلہ افزاء تبصروں کیلئے قارئین کا شکریہ۔
انشاءاللہ اگلا پڑاؤ ۔۔۔ تاج محل
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar