احساس معاشرے کا حسن ہے معاشرے میں باہمی روابط اسی کی بدولت قائم ہوتا ہے احساس روح کی مانند ہے اسی لئے احساس کا رشتہ خونی رشتے سے پائیدار ہوتا ہے اگر احساس نہ ہو تو رشتے بے جان نظر آئیں۔
معاشرتی لین دین ، باہمی محبت اور بھائی چارہ ہمارے دلوں میں احساس جیسے جذبے کی موجودگی کا بہترین اظہار ہے۔اگر انسان احساس جیسی نعمت سے محروم ہو تو اس کے سینے میں موجود گوشت کا ٹکڑا یعنی دل پتھر نما لگتا ہے موم دل اور پتھر دل میں فرق احساس کے موجود ہونے اور نہ ہونے سے ہے ۔
انسانیت اصل میں احساس کا ہی نام ہے ایسے تمام کام جو ہمارے دل کو مطمئن کرتے ہیں جن کی وجہ سے ضمیر پر سکون رہتا ہے وہ انسانیت کی خدمت کے کام ہے اور انسانیت کی خدمت ہی تو احساس ہے دور حاضر کی اندھیری صبح کی وجہ ہمارے دلوں کا پتھر بن جانا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہم احساس جیسے جذبے سے عاری ہو گئے ہیں۔
حد یہ ہے کہ ہم کسی سے مسکرا کر ملنا بھی گوارا نہیں کرتے یہ جانتے ہوئے بھی کے مسکرا کر ملنا باعث ثواب ہے ۔ روزمرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان انسان سے تنگ ہے جانوروں کی حصلتیں انسانوں میں عروج پا رہی ہیں یہ اخلاقی زوال دیکھتے ہوئے بھی ہم ساکن کھڑے ہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہم احلاقی قدروں کو روندتے چلے جارہے ہیں۔
جیسے پھول میں خوشبو نہ ہو تو بیکار لگتا ہے اسی طرح اگر رشتے میں احساس نہ ہو تو وہ رشتہ بھی بے جان اور مرجھایا ہوا لگتا ہے ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر احساس نہیں ہے انسانی زندگی میں محبت ، دوستی حتیٰ کہ سب روابط اور رشتوں کا پہلا زینہ احساس ہوتا ہے۔
اور احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم آج ان رشتوں کو کمزور دیکھ رہے ہیں۔
ہم آج ایک دوسرے کی مدد کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، کسی کی ترقی کو حسد اور بری نگاہ سے دیکھتے ہیں، لوگوں کی مدد کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اگر کسی کو قرض دے ہی دیں تو اسے اپنا غلام سمجھتے ہیں، امراء کی ہم خوش آمد کرتے ہیں اور غریبوں سے بدسلوکی کرتے ہیں۔
ہمارے دل کا نرم گوشت پتھر میں بدل گیا ہے دنیا میں سب سے بڑی محرومی احساس کی محرومی ہے۔ جس سے ہم بھی محروم ہیں۔
یاد رکھئے حقوق العباد کی ادائیگی احساس کی بدولت ہی ممکن ہے آج ہمارے دل مردہ ہیں، انسانیت ختم ہوچکی ہےاور احساس ہمارے معاشرے سے مر چکا ہے اس سب کے بعد امن ، سکون اور اطمینان کی غیر موجودگی تعجب کی بات نہیں ۔
انسان انسانیت کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے اور انسانیت احساس کی اساس پر قائم ہے احساس کی عدم موجودگی انسان کو اشرف المخلوقات جیسے درجے سے محروم کر دیتی ہے۔
جب رشتے میں احساس ہو تو وہ خوشبو کی مانند پھیل جاتے ہیں اور ہر سو سکون کا باعث بنتے ہیں ۔ ہم داڑھی، حج، نماز اور زکوٰۃ سے انسانوں کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔
حقوق اللہ اگر خدا چاہے تو معاف کر سکتا ہے مگر حقوق العباد جو احساس کی بنا پر ادا ہو سکتے ہیں انسان معاف کرے تو ہی معاف ہوں گے ۔احساس نرم دلوں پر حکومت کرتا ہے اس کی موجودگی انسان کو لذت دیتی ہے ہمارے انسان ہونے کی دلیل احساس کی موجودگی ہے ورنہ ہم شکل و صورت کے انسان رہیں گے کردار کے انسان نہیں رہیں گے زندگی نام ہے احساس کا۔
تمام خوشیاں احساس میں پوشیدہ ہیں ۔ روحانی خوشی بے مثل ہوتی ہے جو صرف احساس سے ملتی ہے لہٰذا اپنے اندر احساس پیدا کیجئے۔ پھیکے رشتوں میں احساس کی مٹھاس کو لائیے اور مادیت پرستی سے بالاتر ہوکر اصل زندگی جیئں۔
تحریر :عبدالرحمن سعید