سالین نے مجھے ایک لفافہ دیا جس میں ڈنر کی دعوت دی گئی تھی اور ڈریس کوڈ بھی لکھا تھا۔ اگرچہ میرا کوئی لباس اس سے سو فیصد میچ نہیں کر رہا تھا لیکن میں نے قریب ترین لباس زیب تن کیا اور لابی میں آ گیا۔ سالین نے ٹیکسی کا رخ کیا تو میں نے گاڑی کے بارے پوچھا، اس نے بتایا کہ ڈنر سے رات گئے واپسی پر وہ گاڑی ڈرائیو نہیں کرتا اسلئے ہم ٹیکسی میں جائیں گے۔
یہ ایک پرائیویٹ کلب کی کارپوریٹ ویک اینڈ پارٹی تھی جس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹرز اور ان کے منظور نظر سٹاف ممبرز مدعو تھے۔ ہماری کمپنی کے ایک ڈائریکٹر شرما جی نے ہم دونوں کو بلایا تھا۔ ممبئی کے مضافاتی علاقے کے ایک فارم ہاؤس میں پہنچ کر میں تو اپنے اوسان خطا کر بیٹھا۔ مجھے لگا کہ میں کسی سٹارپلس کے سیریل میں آ گیا ہوں۔ اندر داخل ہوتے ہی ہمیں ویلکم ڈرنک آفر کیا گیا، سالین نے اپنی مرضی کا گلاس اٹھایا اور میں نے معذرت کی۔ ویٹر نے سمجھا کہ میری چوائس یہاں نہیں ہے تو فوراً ہیڈ ویٹر آیا اور مجھے دیگر مشروبات کے نام بتانے لگا جو وہاں دستیاب تھے۔ میں نے سوڈا ود فریش لائم مانگ لیا، اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ میں محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے مجھے تھوڑی دیر میں مطلوبہ مشروب لا کر دیا۔ اسی اثناء میں ہمارے میزبان ہمیں ریسیو کرنے آئے، ان کے ہاتھ میں بھی لال شربت تھا اور بغل میں دیویکا جو ہوٹل والی حسینہ سے کہیں بہتر درجے کا ماڈل تھی۔ پہلی ملاقات تھی اسلئے حال احوال کرنے کیلئے ہم صوفے پر بیٹھ گئے اور سالین ،دیویکا کے ساتھ گپ شپ میں لگ گیا۔
شرما جی بہت بے تکلف اور خوش مزاج انسان تھے، میرے ہاتھ میں فریش لائم دیکھ کے انہوں نے مجھے دیگر مشروبات کی افادیت پر طویل لیکچر دیا اور میری ہمت بندھائی کہ میں ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ کہنے لگے ہمارے بہت سے پاکستانی دوست جو یہاں آتے ہیں وہ شروع میں تکلف کرتے ہیں اور بعد میں تکلف بر طرف۔ انہوں نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہنے لگے “یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تمہیں۔۔۔ اور دیکھو تمہیں تو جنت میں شراب بھی ملنی ہے اور حوریں بھی ۔۔۔ تو سمجھ لو تھوڑے دنوں کیلئے جنت میں آگئے ہو۔ سچ سچ بتاؤ یار یہ دیویکا تمہیں حور نہیں لگ رہی؟”
میں نے انہیں مختصر فلسفہ سمجھا دیا کہ شراب حرام ہے اور میں کسی صورت اس کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ دیویکا کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ وہ حور شمائل تو بہرحال تھی۔ شرما جی نے مجھے گوشت اور مرغی حلال ہونے کی یقین دہانی کرائی، اگرچہ ہنومان جی کے بھگت ہونے کے ناطے وہ ہفتے میں ایک روز گوشت نہیں کھا سکتے اور آج شائد وہی دن تھا۔ وہیں پر ایک اور صاحب سے تعارف ہوا جو مٹھائی کی پلیٹ بھر کے ٹھونس رہے تھے اور اپنے کسی بھگوان کو برا بھلا کہہ رہے تھے کیونکہ اس بھگوان کے بھگت آج کے دن پکا ہوا کھانا نہیں کھا سکتے۔ میں نے کہا سر کھا لیجیے آپ کے بھگوان کون سا دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کارپوریٹ ورلڈ کے یہ ٹاپ کلاس لوگ بہت سلجھے ہوئے، خوش مزاج اور خوش گفتار نظر آئے۔ بہت سے لوگ مجھ سے اس لئے بھی ملنے آئے کہ ان کے آباؤ اجداد پاکستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اور پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ جو بھی ملتا وہ فریش لائم کو کسی اور مشروب سے تبدیل کرنے کا ضرور کہتا۔
اس دوران پرانے گانوں کا دور چل پڑا اور اکثر لوگ اس طرف متوجہ ہو گئے۔ میں دیویکا کو تلاش کر رہا تھا لیکن وہاں تو سب ایک سے بڑھ کر ایک دیویکائیں موجود تھیں۔ دیویکا کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر میں تھوڑا نروس ہوا، اتنے بولڈ لباس میں ایک بیوٹی فل کو لائیو دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا اور وہ بھی دسترس میں۔۔۔۔ 😎
ہندوؤں نے تو اپنے اپنے بھگوانوں کے لحاظ سے اپنے معاملات تبدیل کئے ہوئے ہیں، ہم مسلمان بھی کم نہیں ہیں۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے سور کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں لیکن شراب پی لیتے ہیں حالانکہ دونوں حرام ہیں خیر مجھے اس بات کی فکر ہو رہی تھی کہ ایک غیر عورت کے اس طرح ملنا یا گفتگو کرنا بھی حرام ہے لیکن دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔ آخر دل نے مجھے راضی کر لیا کہ ملنے جلنے اور بات چیت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ کسی کے بہکاوے میں آ کے اس سے آگے نہیں بڑھنا۔
دیویکا کا خیال تھا کہ شائد میں بوریت محسوس کر رہا ہوں اسلئے میرے پاس آئی اور پول سائڈ پر چلنے کی دعوت دی۔ میں ویسے بھی اس بدبو دار ماحول سے باہر نکلنا چاہتا تھا، سو اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ شرما جی کی کوآرڈینیشن منیجر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی بزنس کی بھی نگران تھی اور کئی سال سے ان کے ساتھ تھی اور اکثر ایسی پارٹیوں میں ان کے ساتھ جاتی تھی۔ اس سے آگے آفس کے لوگوں نے بہت قصے سنائے لیکن حقیقت کا کچھ پتہ نہیں۔ مجھے اس کے ساتھ چلتے ہوئے اچھا لگ رہا تھا اور جس طرح آپ جیلس ہو رہے ہیں سالین بھی ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔۔۔😀
باہر کا ماحول بہت مختلف تھا، کئی لوگ بیچارے غربت و افلاس میں نظر آئے جن کے پاس پہننے کے کپڑے بھی نہیں تھے ! ایک آدھ راہداری سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں جیسے کچھ لوگ شدید تکلیف میں ہوں۔ خیر ان سب کو نظرانداز کر کے ہم لان میں آ کے بیٹھ گئے۔ جوان رات، ہلکی ہلکی روشنی، دور سے سنائی دینے والی موسیقی، ایک حسین دوشیزہ کا ساتھ اور سگریٹ۔۔۔ اپنے لئے تو یہی enjoyment تھی۔ آپ کیا سمجھے تھے وہ آپ کی سوچ ہے۔
میں ایک کمزور اور ناتواں انسان، اس محفل کی رنگینی میں گم بھی ہو جاتا اور پھر واپس بھی لوٹ آتا۔ اسی کشمکش میں کھانے کا دور بھی چلا۔۔۔ سالین اپنی تمام حسرتیں نکال رہا تھا اور میں دیویکا کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ دیویکا نے کہا اب چلنا چاہئے، آدھی رات ہو چکی تھی۔ میں کہنا چاہتا تھا “دل ابھی بھرا نہیں” کہہ نہیں پایا۔
اندر محفل اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی، سالین ہمیں تلاش کرتے ہوئے آ گیا۔ اس نے بتایا کہ کل میرا آفس کا وزٹ ہے ، تمام سینئر منیجرز کے ساتھ ملاقات اور لنچ کیلئے دیویکا مجھے بارہ بجے ہوٹل سے پک کرے گی۔ یہ سنتے ہی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے، میں نے گھڑی دیکھی 12 بجنے میں ابھی 11 گھنٹے باقی تھے۔ 😩چھٹی کے دن میٹنگ کرنے یا کسی اور کام کیلئے دفتر آنا وہاں معیوب نہیں سمجھا جاتا، بس شام سے پہلے فری ہو جائیں تاکہ فلم دیکھی جا سکے۔ فلم ممبئی والوں کی زندگی کا لازمی جزو ہے، اچھے تھیٹرز میں مناسب سیٹ آپ کو پہلے سے بک کرنی ہوگی ورنہ ٹکٹ ملنا بہت مشکل ہے۔
دیویکا کے آنے کی خبر سن کر مجھے سالین برا لگنے لگا تھا 🤣 ۔۔۔ میں یہ بھول گیا کہ اس نے تھانے سے کتنی آسانی سے مجھے چھڑایا تھا اور بہترین کھانا کھلایا تھا۔ سچ ہے انسان بہت ناشکرا ہے۔ میں نے راستے میں اس سے پوچھا بھی کہ ساوتھ انڈین مرد اتنے کالے اور خوفناک کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ لڑکیاں بہت حسین ہوتی ہیں، ہم نے تو تامل فلموں میں ایسا ہی دیکھا ہے۔ اس نے مسکرا کے ٹال دیا ویسے بھی وہ کافی ٹن تھا۔
ایک طویل دن اپنے اختتام کو پہنچا اور میں ہوٹل پہنچ کر اگلے دن کی مصروفیات کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گیا۔۔۔ اگلے دن میں تیار ہو کے بیٹھا تھا، 12 بجنے سے تھوڑی دیر پہلے ریسیپشن سے پیغام آیا کہ مس دیویکا آئی ہیں۔ میں پلک جھپکتے میں باہر نکل گیا، لابی میں ایک خاتون بیٹھی تھی لیکن میں دیویکا کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ریسیپشن سے پتہ کیا تو اس نے اسی خاتون کی طرف اشارہ کیا جو پہلے ہی میری طرف چل پڑی تھی۔ وہ واقعی دیویکا تھی ، میں نے شائد اس لئے نہیں پہچانا کہ وہ مکمل لباس میں تھی اور میں انتہائی مایوسی کے عالم میں۔۔۔
دفتر پہنچ کر ہم میٹنگ روم میں چلے گئے، شرما جی بھی بالکل بدلے ہوئے دکھائی دیئے تو مجھے بھی آفیشل موڈ میں آنا پڑا۔ پراجیکٹ کے بارے میں ٹاسک تقسیم کر کے ہم نے ورکنگ لنچ کیا اور واپسی کی اجازت لینے کیلئے شرما جی سے ملنے گئے۔ انہوں نے دیویکا کو کہا “بھئی ہمارے پاکستانی دوست ہماری محفلوں میں تو بور ہوتے ہیں تم انہیں فلم دکھانے ہی لے جاؤ۔” اس نے خوشی سے حامی بھری اور تھوڑی دیر میں فلم کا انتخاب کر کے ٹکٹ بک کرا دی۔ ہمیں 7 بجے شو میں پہنچنا تھا گویا 3 گھنٹے انتظار۔۔۔ کہاں یہ وقت گزارا؟
اگلی نشست میں۔۔۔
جاری ہے
تحریر: ظفر ڈار
@ZafarDar
بہت خوب ڈار صاحب
اندازِ گفتگو گویا دیویکا و دیگر کرداروں کی موجودگی کا احساس