ظاہر داری یعنی دکھاوا ہمارے اندر رس چکا ہے آج ہمارا ہر کام رسمی ہوتا ہے چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی۔ حالیہ دنوں میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یوم پیدائش ( 9 نومبر ) گزرا ہے۔ہم سب نے محسوس کیا ہے کہ سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا ہر جگہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری اور اقوال کی بھرمار تھی دیواروں پر اقبال کے شعر درج تھے ٹی وی چینلز نے خوب اقبال کو خراج تحسین پیش کیا
ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے انداز میں اس دن کو گزارا ہے۔ مگر حیف صد حیف بہت کم لوگ ہی ہوں گے جو اقبال کی شاعری میں بیان کردہ اصولوں پر غور و فکر کرتے ہوں گے بہت کم لوگ ہوں گے جو ان بنیادی اصولوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہوں گے بہت کم لوگ ہوں گے جو دکھاوے سے آگے بڑھ کر عملی کام کریں گے۔
آج ہم گفتار کے غازی اور کردار سے عاری ہیں ہم اپنے اسلاف سے پیار کا اظہار بھی صرف رسمی طور پر کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقبال نے کہا تھا:
اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا
اسی طرح اگلے ماہ یعنی دسمبر میں قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا یوم پیدائش آئے گا۔ ہم سب اس دن قائداعظم کے اصولوں کو صرف یاد کریں گے۔ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی ہوگی۔ قائداعظم کے اصول اور اقوال آپ کو دیواروں اور اخباروں پر نظر آئیں گے۔
سوشل میڈیا قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی تصاویر سے رنگین ہوگا آپ بارہا پڑھیں گے
” ایمان ،اتحاد، تنظیم ”
مگر آپ بہت کم لوگوں کو اس اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ہمارے اسلاف کی کامیابی اور ہماری ناکامی کی وجوہات یہی ہیں کہ وہ عملی لوگ تھے اور ہم صرف باتوں کے بادشاہ ہیں وہ اپنے دین سے لگاؤ رکھنے والے اور عمل کرنے والے تھے اور ہم صرف لگاؤ رکھنے والے ہیں ہم صرف رسمی لوگ ہی نہیں رسمی مسلمان بھی بن چکے ہیں۔
ہر گزرتا دن ہمیں تنبیہ کرتا ہے سدھرنے کی سنبھلنے کی۔ مگر ہم رسمی اور ظاہرداری کی دنیا میں مگن ہے ۔ آج ہمیں اپنی بدحالی سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کی اشد ضرورت ہے ۔
ہمیں یکجا ہو کر ابھرنے کی ضرورت ہے۔ کل نہیں آج سے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ:
ع افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
اللہ تعالی ہمیں کامیابی عطا فرمائے آمین “پاکستان زندہ باد”تحریر: عبدالرحمن سعید